Owais bhai aur Syed Furqan bhai ka peyar aur kahloos dil ko bohot bhata hai, ALLAH pak in mohabbaton ko sada salamat rakhain, aur her kisam k sher se mehfooz rakhain ameen
پُل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو فریاد اُمّتی جو کرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو کہتی تھی یہ بُراق سے اُس کی سبک روی یوں جائیے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں اے مرتضیٰ عتیق و عمر کو خبر نہ ہو ایسا گما دے اُن کی وِلا میں خدا ہمیں ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو آ دل! حرم کو روکنے والوں سے چھپ کے آج یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بَر کو خبر نہ ہو طیرِ حرم ہیں یہ کہیں رشتہ بپا نہ ہوں یوں دیکھیے کہ تارِ نظر کو خبر نہ ہو اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے یوں دل میں آ کہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو اے شوقِ دل یہ سجدہ گر اُن کو روا نہیں اچھا وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو ان کے سوا رؔضا کوئی حامی نہیں جہاں گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو
وصفِ رُخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس وضُحٰے کرتے ہیں اُن کی ہم مَدْح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں ماہِ شق گَشْتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رَجعت دیکھو مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں تُو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چُھپ گئے تیری ضِیا میں تارے اَنبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نُور لیا کرتے ہیں اے بَلابے خِرَدیِ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں اِنکار کہ گواہی ہو گر اُس کو دَرکار بے زباں بول اُٹھا کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گِرا کرتے ہیں رِفعت ذِکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا مرغِ فردَوس پس اَز حمدِ خدا تیری ہی مَدْح و ثنا کرتے ہیں اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے گِرنے والوں کو چَہِ دوزخ سے صاف الگ کِھینچ لیا کرتے ہیں جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کِھلکِھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر پھول جامہ سے نِکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں تُو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہرآں تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دُعا کرتے ہیں جس کے جلوے سے اُحد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں کیوں نہ زیبا ہو تجھے تا جوری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں ٹُوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپا کرتے ہیں لب پر آجاتا ہے جب نامِ جناب منھ میں گُھل جاتا ہے شہدِ نایاب وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چُوم لیا کرتے ہیں لب پہ کس منہ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دِل ہے الم جس کا سنائیں ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے دَرپر جو مٹا کرتے ہیں اپنے دِل کا ہے اُنہیں سے آرام سونپے ہیں اپنے اُنہیں کو سَب کام لو لگی ہے کہ اب اس دَر کے غلام چارۂ دردِ رضا کرتے ہیں