اللّٰہ پاک پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے صدقے سے ھماری مغفرت فرمائے ھمارا ایمان پہ خاتمہ باالخیر فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ السید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
خدا کی تعریف تو سبھی کرتے ہیں کل کے کل دو جہاں خدا خود حیران ہے نبی کے نواسے کے رحم و کرم کو دیکھ کر نبی محمد مصطفی امام حسین کا گلا چوم کر دکھاتے تھے اور امام حسین امام زین العابدین کا ماتھا چوم کر دکھاتے تھے نبی کی امت کو امام حسین نے فرمایا میں میرا امتحان اتنا پر کٹھن نہیں میں عرشوں پر عالم ملکوت میں جاؤں گا میرے جانے کے بعد امام زین العابدین میرے جانے کے بعد اپ کا ایک پر کٹھن سفر ہوگا سر نیزوں پر ہوں گے اپ کو بازاروں میں پرایا جائے گا اور ال نبی کی بے حرمتی کی جائے گی عرش والا بھی خدا اپ کے صبر کو دیکھ کر ہوگا حیران عرشوں جو کل بی روح القدس اور اہل بیت سے منافقت کرتے تھے اور اج بھی کرتے ہیں خدا نے ان کے دلوں پر مہریں لگا رکھی ہیں اور ان کی انکھوں پر بغض کی پٹی بندھی ہوئی ہے کہ اجب ہے اس خدا کا نور جن کے نور سے ہے یہ کائنات کا نور
جن کے سر پر چادر تطہیر بن کر فرشتے اپنے پروں کو بچھائے سر پر سایہ کرتے ہیں جن کا احترام کیا چاند تارے سورج زمین و اسمان میں ان کے پیروں کے نیچے سورج بھی سر کو جھکائے کھڑا یزید کی اوقات کیا سر کو اٹھاتا ان کے سامنے جن کے سر پر فرشتے اپنے پروں سے ا کر سایہ کریں جو نبی کے نام کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں انہوں نے نبی کی ال سے نہ کی وفا انہوں نے نبی کی ال کو کیوں نہیں دیا پردہ جن کا احترام کرتا تھا سورج سر کو جھکائے ہوئے اس خدا نے کل کا کل راز اپنے راز حقیقی میں چھپا رکھا ہے جو روح القدس اور اہل بیت سے پیار کرتا ہے ان کے ساتھ تو خدا بھی پیار کرتا ہے روزے محشر ان کو نہ تو جنت کا فکر ہوگا نہ دوزخ کا ڈر ہوگا مومن کل کائنات کے خدا کی حضوری میں ہونگے بے فکر کھڑے سب کا خدا ایک ہے سب کا ایمان بہشت بھی ہے ایک
خلیفہ بنی امیہ ہشام بن عبد الملک حج پر گیا اور طواف کے بعد اس نے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اپنی پوری دنیاوی شان و شوکت کے ساتھ چل پڑا۔ لیکن لوگ طواف اور اللہ کی تسبیح میں اتنے مشغول تھے کہ بادشاہ کو حجرِ اسود کی طرف جانے نہ دیا اور ہشام کے غلام بھی بے بس نظر آئے۔ پھر ہشام پلٹ گیا، ایک اونچے تخت پر جا بیٹھا اور حاجیوں کو دیکھنے لگا۔ اسی وقت امام زین العابدین علیہ السلام کی مسجد الحرام میں آمد ہوئی اور لوگوں نے آپ علیہ السلام کو راستہ دینا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر ہشام چونک اٹھا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کون شخصیت ہیں۔ ہشام نے جان کر انجان بنتے ہوئے کہا میں نہیں جانتا یہ کون ہیں اور کیوں لوگ ان کے ارد گرد جمع ہیں۔ فرزدق نے،جو اس وقت وہاں موجود تھے، جواب دیا: ’’لیکن میں جانتا ہوں یہ کون شخصیت ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر ایک طویل قصیدہ بیان کیا: يَا سَائِلِي اَيْنَ حَلَّ الْجُودُ وَ الْكَرَمُ عِنْدِي بَيَانٌ إِذَا طُلَّابُهُ قَدِمُوا اے جود و کرم، شرافت و بزرگی کے مرکز کے بارے میں سوال کرنے والے، اس کا واضح جواب میرے پاس ہے اگر سوال کرنے والے میرے پاس آیئں۔ هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ وَ الْبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ یہ وہ ہیں جنہیں مکہ کی زمین ان کے قدموں کے نشانات پہچانتی ہے۔ خدا کا گھر (خانہ کعبہ) حرم اور حرم کے باہر کی سرزمیں ان کو پہچانتی ہے۔ هَذَا ابْنُ خَيْرِ عِبَادِ اللهِ كُلِّهِمْ هَذَا التَّقِيُّ النَّقِيُّ الطَّاهِرُ الْعَلَمُ یہ بہترین بندگان خدا کے فرزند ہیں۔ یہ پرہیزگار، پاک و پاکیزہ اور ہدایت کا پرچم ہیں هَذَا الَّذِي أَحْمَدُ الْمُخْتَارُ وَالِدُهُ صَلَّى عَلَيْهِ إِلَهِي مَا جَرَى الْقَلَمُ یہ وہ ہیں، خدا کے منتخب کردہ رسول احمد مختارصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے والد ہیں، جن پر خدا ہمیشہ درود و سلام بھیجتا رہتا ہے لَوْ يَعْلَمُ الرُّكْنُ مَنْ قَدْ جَاءَ يَلْثِمُهُ لَخَرَّ يَلْثِمُ مِنْهُ مَا وَطِئَ الْقَدَمُ اگر حجر اسود کو معلوم ہو جائے کہ کون اسکا بوسہ لینے آرہا ہے تو بلا اختیار خود کو زمین پر گرا کر ان کے قدموں کا بوسہ لیتا هَذَا عَلِيٌّ رَسُولُ اللهِ وَالِدُهٗ أَمْسَتْ بِنُورِ هُدَاهُ تَهْتَدِي الْأُمَمُ یہ علیؑ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے والد ہیں۔ ان کی ہدایات سے امتیں ہدایت یافتہ ہوتی ہیں۔ هَذَا الَّذِي عَمُّهٗ الطَّيَّارُ جَعْفَرٌ وَ الْمَقْتُولُ حَمْزَةُ لَيْثٌ حُبُّهُ قَسَمٌ جناب جعفر طیار اور جناب سید الشہداء حمزہ ان کے چچا ہیں۔ یہ وہ شیر الٰہی ہیں کہ بہادر اور دلیر جن کی قسم کھاتے ہیں۔ هَذَا ابْنُ سَيِّدَةِ النِّسْوَانِ فَاطِمَةَ وَ ابْنُ الْوَصِيِّ الَّذِي فِي سَيْفِهِ نِقَمٌ یہ عورتوں کی سردار فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں اور وصی پیغمبر کے فرزند ہیں جن کی تلوار میں (مشرکین و کافرین کی) موت چھپی ہوتی ہے۔ إِذَا رَأَتْهُ قُرَيْشٌ قَالَ قَائِلُهَا إِلَى مَكَارِمِ هَذَا يَنْتَهِي الْكَرَمُ قریش ان کو دیکھ کر اعتراف کرتے ہیں کہ شرافتیں اور بزرگیاں ان کی ذات پر ختم ہوتی ہیں۔ يُنْمِي إِلَى ذِرْوَةِ الْعِزِّ الَّتِي قَصُرَتْ عَنْ نَيْلِهَا عَرَبُ الْإِسْلَامِ وَ الْعَجَمُ- یہ عزت کی اس بلندی پر فائز ہیں جہاں عرب و عجم پہنچنے سے قاصر ہیں۔ وَ لَيْسَ قَوْلُكَ مَنْ هَذَا بِضَائِرِهِ الْعَرَبُ تَعْرِفُ مَنْ أَنْكَرْتَ وَ الْعَجَمُ (اے ہشام) تیرا یہ کہنا کہ ’یہ کون ہیں‘ اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ جس کو تو نہیں پہچانتا اس کو عرب و عجم پہچانتے ہیں۔ يُغْضِي حَيَاءً وَ يُغْضَى مِنْ مَهَابَتِهِ فَمَا يُكَلَّمُ إِلَّا حِينَ يَبْتَسِمُ وہ حیا سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں، لوگ ان کی ہیبت سے نظر اٹھاکر انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ ان سے گفتگو بس اس وقت ممکن ہے جب ان کے لبوں پر مسکراہٹ ہو۔ يَنْجَابُ نُورُ الدُّجَى عَنْ نُورِ غُرَّتِهِ كَالشَّمْسِ يَنْجَابُ عَنْ إِشْرَاقِهَا الظُّلَمُ ان کی پیشانی کے نور سے تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ جس طرح آفتاب اندھیروں کو دور کر دیتا ہے۔ مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُّدِهِ لَوْ لَا التَّشَهُّدُ كَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمْ وہ اس قدر سخی ہیں اگر تشہد میں ’لا‘ (نہیں) ہوتا تو ان کی زبان مبارک سے کبھی ’لا‘ نہ جاری نہ ہوتا۔ مُشْتَقَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ نَبْعَتُهُ طَابَتْ عَنَاصِرُهُ وَ الْخِيمُ وَ الشِّيَمُ ان کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس ہے۔ پاک و پاکیزہ اخلاق و کردار اور بہترین عادات و اطوار۔ حَمَّالُ أَثْقَالِ أَقْوَامٍ إِذَا فَدَحُوا حُلْوُ الشَّمَائِلِ تَحْلُو عِنْدَهُ نِعَمٌ قوم کی ہدایت کا بار گراں کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں، جس کو اٹھانے سے پہاڑ انکار کرتے ہیں۔ إِنْ قَالَ قَالَ بِمَا يَهْوَى جَمِيعُهُمْ وَ إِنْ تَكَلَّمَ يَوْماً زَانَهُ الْكَلِمُ اگر وہ لبوں کو جنبش دیں تو سب ان کی بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو فصاحت و بلاغت کی زینت ہے۔