Peer Ajmal Raza Qadri Bayan Peer Ajmal Raza Qadri, محمّد اجمل رضا قادری, is a well-known Pakistani Sunni and Sufi Muslim scholar, preacher, and RU-vidr. His notable contributions lie in delivering impactful speeches on various Islamic subjects. Residing in Gujranwala, a city in Pakistan, Peer Ajmal Raza Qadri hails from Sultan Pura, Ghakhar, his native village. Currently, he serves as a Khateeb at Jama Masjid Rahmaniya Rizvia. Peer Ajmal Raza Qadri hosts the show "Rah-e-Aamaal" on ARY Qtv, where he predominantly focuses on topics related to Awliya Allah, the Sufi saints. Additionally, he draws inspiration from the poetry of Mujaddid, Imam Ahmed Raza Khan Qadri.
Assalam alyekum rahmattullahe barkattahu hazrat mein bhi app se allah ke liye app se mahobbat karta hu mein ne app ko kal shidre ke liye darkhast ki thi app ne jawab nahi Diya mein sibtain Raza se bait Kiya tha wo parda ker chuke haye Mera shidra gum ho gaya haye app mughe apna murid bana le aur ager app kahe tto mein India me Puna shaher mein rahta hu mera adress bhej sakta hu jawab talab
تفہیم القرآن مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 1 أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ؕ اُحِلَّتۡ لَـكُمۡ بَهِيۡمَةُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا يُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ غَيۡرَ مُحِلِّى الصَّيۡدِ وَاَنۡـتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَحۡكُمُ مَا يُرِيۡدُ ۞ ترجمہ: ے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پُوری پابندی کرو۔ 1تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے،2 سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کرلو،3 بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔4 تفسیر: سورة الْمَآىِٕدَة 1 یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورة میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اس بندشوں کا بیان شروع ہوجاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة 2 ” اَنعام “ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ” بہیمہ “ کا اطلاق ہر چرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں ” انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ ” مویشی کی قسم کے چرندہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہوجاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کے دائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی نوعیت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دوسری حیوانی خصوصیات میں انعام عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی ﷺ نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے ان پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ ﷺ عن کل ذی ناب من السباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دوسرے متعدد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں۔ سورة الْمَآىِٕدَة 3 ” احرام “ اس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کردی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمولی لباس اتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو معمولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبو کا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے۔ سورة الْمَآىِٕدَة 4 یعنی اللہ حاکم مطلق ہے، اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں، لیکن بندہ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کردی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کردی ہے وہ بھی کسی دوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اس بنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پورے زور کے ساتھ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حرمت و حلت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز۔
اوجٍ سعادت یادیں اور یاد داشتیں حضور شیخ الاسلام غریبنواز رض غازی علم الدین شہیدؒ کی ملاقات کے لئے دو بار میانوالی جیل تشریف لے گئے ، ایک بار شہادت سے پہلے اور دوسری بار جب قبر کشائی ہوئی اور شہید کے جسدِ اطہر کو لاہور میانی صاحب منتقل کیا گیا ، حضرت خواجہ غلام فخر الدین سیالویؒ آنکھوں دیکھا حال بیان فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ غازی صاحب کی کوشش تھی کہ سلاخوں کے پار دست بوسی میں پہل کریں مگر حضور شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ نے سبقت فرمائی اور غازی صاحب کو اس عظیم اعزاز پر مبارک بھی دی ، فرمایا کہ ارادہ میرا بھی یہی تھا مگر یہ سعادتِ عظمیٰ آپ کا مقدر تھی کہ آپ نے گستاخ راجپال کو جہنم رسید کیا ۔۔۔ یہ ملاقات جمعۃ المبارک کے دن ہو رہی تھی ، دورانِ گفتگو حضور شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ نے استفسار فرمایا کہ غازی صاحب ! اس کارنامے سے پہلے کے احوال اور بعد کے احوال میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟ غازی صاحب نے جواباً فرمایا کہ حضور میں نے تین فرق محسوس کئے ہیں، نمبر ایک یہ کہ مجھے جیل کی کوٹھڑی میں دن کی روشنی میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ روزانہ رسولِ کریم رؤف و رحیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت عطا ہوتی ہے نمبر دو یہ کہ پہلے میں ایک کم پڑھا لکھا مزدور آدمی تھا مگر اب جیل میں مجھے الحمد سے والناس تک ازبر عطا ہو گیا ہے نمبر تین یہ کہ پرسوں اتوار کے دن جو میری پھانسی کا اعلان کیا گیا ہے یہ ناممکن ہے کیونکہ مجھے میرے آقا کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ علم الدین ! ہم خمیس (جمعرات) کو تمہارا استقبال کریں گے ، یہ کہتے ہوئے غازی صاحب کا چہرہ مزید دمک اٹھا اور ایک شگفتہ سی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ انگریز نے ملک گیر بھرپور احتجاج کے باعث اتوار والی پھانسی کو ملتوی کیا اور جمعرات کو غیر اعلانیہ عملدرآمد کیا گیا اور میانوالی جیل کے احاطے میں امانۃً تدفین ہوئی ۔۔۔ حضرت خواجہ فخر الدین سیالویؒ نے مزید فرمایا کہ جب قبر کشائی کے موقع پر ہم حضور شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ کے ہمراہ دوبارہ زیارت کے لئے پہنچے تو انگریز ڈاکٹروں کی زیرِ نگرانی قبر کشائی ہو رہی تھی اور ڈاکٹروں نے نہ جانے کیا سوچ کر اپنے چہروں پر ماسک چڑھا رکھے تھے مگر بہت جلد انہوں نے ماسک اتارنے شروع کر دیئے ۔۔ ایک عجیب سی خوشبو تھی کہ امڈی آ رہی تھی ۔۔۔ مٹی کو ہاتھوں میں لے لے کر سونگھ رہے تھے اور ششدر و حیران تھے کہ یہ نہ گلاب ہے نہ چنبیلی ، نہ مشک ہے نہ عنبر ، یہ نہ جانے کس جہان کی خوشبو ہے ؟ اور پھر شہید کا چہرہ تھا کہ حیاتِ نو حیاتِ جاوداں کا مظہر، تر و تازہ اور منور۔ سبحان اللہ الله أكبر بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ھوتا نیازمند میجر محمد اسلم خان قمری سیالوی ایم اے عربی ایم اے ایجوکیشن فاضلٍ سیال شریف فاضلٍ مصر چیٸرمین بزمٍ سیف و قلم پاکستان