Тёмный

صلاة الجمعة للشيخ د إسماعیل هنية شهيد. ismail Haniyeh  

UR .Official
Подписаться 677
Просмотров 315
50% 1

Islamic University of Gaza (BA)
Haniyeh was born in the al-Shati refugee camp in the then Egyptian-controlled Gaza Strip in 1962 or 1963,[c][13][14][15][16] to parents who were expelled or fled from Al-Jura (now part of Ashkelon) during the 1948 Palestine war.[8][5][7] He earned a bachelor's degree in Arabic literature from the Islamic University of Gaza in 1987,[7][17] where he first became involved with the militant group Hamas, which was formed during the First Intifada against the Israeli occupation. His involvement led to his imprisonment for three short periods after participating in protests. After his release in 1992, he was exiled to Lebanon, returning a year later to become a dean at Gaza's Islamic University. Haniyeh was appointed to head a Hamas office in 1997 and subsequently rose in the ranks of the organization.[18]
Haniyeh was head of the Hamas list that won the Palestinian legislative elections of 2006, which campaigned on armed resistance against Israel, and so became Prime Minister of the State of Palestine. However, Mahmoud Abbas, the Palestinian President, dismissed Haniyeh from office on 14 June 2007. Due to the then-ongoing Fatah-Hamas conflict, Haniyeh did not acknowledge Abbas' decree and continued to exercise prime ministerial authority in the Gaza Strip.[19] Haniyeh was the leader of Hamas in the Gaza Strip from 2006 until February 2017, when he was replaced by Yahya Sinwar. Haniyeh was seen by many diplomats as one of the more pragmatic and moderate figures in Hamas.[20] From 2017 until his assassination by Israel in 2024, he had mostly lived in Qatar.[21]
On 6 May 2017, Haniyeh was elected chairman of Hamas's Political Bureau, replacing Khaled Mashal; at the time, Haniyeh relocated from the Gaza Strip to Qatar.[22][23] Under his tenure, Hamas launched the 2023 Hamas-led attack on Israel, and subsequently Israel declared its intention to assassinate all Hamas
فلسطینی رہنما اسماعیل ھنیہ
حماس کے رہنما اسماعیل ھنیہ کون تھے ؟
العربیہ ڈاٹ نیٹ
فلسطینی مزاحمتی تحریک جس کے رہنما اسماعیل ھنیہ کو بدھ کی صبح ایرانی دارالحکومت میں نشانہ بنایا گیا ہے کون تھے؟ وہ ایک ایسا فلسطینی چہرہ تھے جو سفارتی سطح پر انتہائی مشکل صورت حال میں بھی سخت سے سخت ماحول میں بھی اپنی بات پوری شدت کے ساتھ کہنے کی شہرت رکھتے تھے۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران ان کے تین بیٹے بھی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی وابستگی اور بیانیہ اسی طرح مضبوطی سے جاری رہا جس طرح اس سے پہلے وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے تھے۔ انہیں بہت سے سفارت کاروں نے ہمیشہ بڑے تحمل اور مہارت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتے اور اس پر قائم رہتے دیکھا ۔ دوسرے کئی رہنماؤں کے مقابلے میں وہ زیادہ متحمل اور سفارتی انداز و اطوار میں ڈھلے ہوئے تھے۔
اشتہار
ان کی پیدائش ایک پناہ گزین کیمپ میں 1962 کو ہوئی تھی ، یہ غزہ میں قائم الشاطی پناہ گزین کیمپ تھا۔ 2017 میں انہوں نے خالد مشعل کی جگہ اپنی موجودہ ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔
اس سے قبل 2006 کے فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی انتخابی جیت کے بعد فلسطین کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے تب سے ان کی شہرت ایک مدبر اور محنتی سیاستدان کے طور پر سامنے آئی۔
موجودہ ذمہ داریاں پر 2017 میں فائز ہوئے توان کا نام اور چہرہ اجنبی نہ تھا۔ حماس کی اکثریت کے باوجود اس کا فلسطینی اقتدار میں آنا کافی مشکل سے ہضم ہونے والی بات تھی۔ بیرونی دنیا میں بھی اور فلسطین کے اندر بھی مشکلات بڑھائی گئیں۔ اس لیے فتح اور حماس کا حماس کی اکثریت کے بعد اختیار کردہ پاور شیئرنگ جاری نہ رہ سکی۔
تاہم اسماعیل ھنیہ اپنی سفارتی و سیاسی زندگی میں ایک عملیت پسند سیاستدان اور سفارت کار کے طور پر جانے گئے۔ اس لیے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والے ھنیہ نے زندگی کئی قیمتی سال جلاوطنی اور مہاجرت میں گذارے ۔ حتیٰ کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی جنگ لڑنے والے اس فلسطینی رہنما کی رحلت بھی غریب الوطنی میں ہوئی۔ اپنے طالبعلمی کے زمانے میں اسماعیل ھنیہ اخوان المسلمون کے طلبہ کے ونگ میں شامل رہے۔ ان کا یہ غزہ یونیورسٹی کا دور تھا ۔
سات اکتوبر کی اسرائیل حماس جنگ شروع ہوئی تو اسرائیلی فوج کو مخاطب کر کے کہا تھا' تم خود کو غزہ کی ریت میں ڈوبتے ہوئے پاؤ گے۔' اسرائیل اب تک دس ماہ کی جنگ کے دوران 39 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی اکثریت سوائے اسرائیل کے بڑے اتحادی ملکوں کے ان ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف بھی جنوبی افریقہ کی درخواست پر اسی نتیجے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ ھنیہ، مشعل اور دیگر کو اس تنظیم کی ڈور ہلانے والا کہتا رہا ہے، لیکن یہ کہنا ابھی تک مشکل ہے کہ حماس کے عسکری ونگ نے سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کیا تو اسماعیل ھنیہ اس حملے سے پہلے آگاہ تھے یا نہیں۔ کیونکہ عسکری ونگ نے یہ حملہ اس قدر خفیہ رکھا تھا کہ کہ حماس کے کئی رہنماؤں کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔
اس دہائی کے دوران اسماعیل ھنیہ حماس کے اہم رہنما کے طور پر رہے، انہوں نے سفارتی میدان میں کئی اہم فیصلے کیے۔ بہت سے چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا کیا۔ حماس کو عوامی سطح پر مضبوط کیا ، عوامی حمایت میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہے۔ اسرائیل کے لیے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ اسے یہ آئیڈیا بہت لگا کہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے اور اس کا پھیلاؤ دوسرے ملکوں میں کرنے سے آسان ہے کہ حماس کی قیادت کو مختلف مقامات اور ملکوں میں ہدف بنایا جائے۔
ٹیگز
فلسطین
اسماعیل_ھنیہ

Опубликовано:

 

11 сен 2024

Поделиться:

Ссылка:

Скачать:

Готовим ссылку...

Добавить в:

Мой плейлист
Посмотреть позже
Комментарии : 1   
@IbrahimMugulusi-vt9eb
@IbrahimMugulusi-vt9eb 14 дней назад
Masha Allah Allah atusasire yarrabi
Далее
Life and Times | ft.Dr sameer Siddiqui
40:24
Просмотров 15 тыс.