انسان اپنے اختیار کی وجہ سے غلط کام کرتا ہے اور یہ برائ اور ہر برائ ہر دور میں موجود ہوتی ہے آج بھی موجود ہے، مگر غامدی کہتا ہے چونک معلوم ہوتا ہے کہ یہ برائ ہے اور یہ برائ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں موجود تھی اس لیے خاص اللہ نے منع فرمایا، رشوت کا تعلق نا انصافی سے ہے اور ملاوٹ کا تعلق ناپ تول سے ہے مگر اس آیت میں باطل کا لفظ آیا ہے جسکی تفسیر کرنے سے غامدی قاصر ہے، معیشت کی بات کی ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ کس کی معیشت مسلمانوں کی یا کفار کی؟ کیونکہ غامدی اسلام کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا، رشوت کی مختلف صورتیں ہیں پیسے💰 دے کر نوکری حاصل کرنا یا پیسے💰 دے کر سزا سے بچ جانا یا کوئ کام نکال لینا اس صورت میں حکام تک مال کیسے پہنچے گا؟اس طرح تو لینے اور دینے والے کا فایدہ ہے، غامدی باطل کا مفہوم بیان نہیں کر سکا کیونکہ غامدی کے نزدیک لفظ کا مفہوم و پس منظر بیان کرنا صحیح نہیں ہے، روزوں کا حکم اپنی جگہ ہے جیسا کہ فرمایا یہ روزے پہلے لوگوں پر بھی فرض تھے مگر اس آیت کے ساتھ روزوں کا تعلق کیسے ہے؟ باطل طریقے سے مال نہ کھانا اور حکام تک نہیں پہنچانا جو کہ خاص فعل ہے اور اس فعل کی دو کڑیاں ہیں مگر غامدی ایک ہی فعل کے حوالے سے ایک ہی تشریح کر رہا ہے مگر وہ بھی غیر تسلی بخش،