کے امید ابھی کچھ باقی ہے ایک بستی بسنے والی ہے جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو اور جینا کوئی جرم نا ہو وہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں اور موسم سارے ملتے ہوں وہاں رنگ اور نور برستے ہوں اور سارے ہنستے بستے ہوں ایک آس ہے ایسی بستی کی جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو جہاں دہشت کا کاروبار نہ ہو وہاں خون کی ہولی آم نہ ہو اس آنگن میں غم کی شام نہ ہو ایک آس ہے ایسی بستی کی جہاں روٹی زہر سے سستی ہو وہاں منصف سے انصاف ملے دل سب کا سب سے صاف ملے یہ بستی کاش تماری ہو یہ بستی کاش ہماری ہو امید ابھی کچھ باقی ہے ایک بستی ابھی بسنے والی ہے