مولا حسین علیہ السلام و پنجتن پاک علیہ السلام اپنے اس فقیر کی شفاعت کریں جس نے لاکھوں علم کے دیئے جلائے. کیا کمال عالم تھا، کیا کمال انسان تھا.. فصاحت و بلاغت کی نعمت سے مولا نے سیراب کیا علامہ کو
AlLaMa k DaRaJaat mazeid buland hon or inke khitaab se lay kr maire sunne or daykhne tk hr waseile ko AJaRo KuMal AlLah Wa JaZaak AlLah ILaHi AaMein Ya RabBul AaLaMein SumMa :)
ALLAMA SAHAB AAP JAISA KOEE AAIY GA HE NAHEE 😢, KYA KHOOBSOORAT DIN OR RAAT THAY JUB AAP K SAMNAY BAITH KAR AAP KA MASOOMEEN A.S SAY LEA GYA ILM SUNA KARTAY THAY , BAYSHUK HAR NAFS KO MOT HAY , LAIKIN MOHIB E AHL UL BAIT A.S SHAHEED HAY OR YAQEENAN AAP AAJ BHEE JANAT MAIN KISEE JAGAH FAZAIL E AHL UL BAIT A.S BYAAN KAR RAHAY HON GAY ALLAH S.W.T OR MASOOMEEN A.S K IZN SAY , KAASH K AAP KA NOORANI CHEHRA DOBARA DAIKH SAKTAY KAASH K AAP KE AWAAZ OR HUB E AHL UL BAIT A.S KO LOGON TUK POHUNCHANA SUN SAKTAY . ADMIN MAIN AAP KA SHUKAR GUZAR HOON K AAP NAY ALLAMA SAHAB KE BEHTREEN MAJALIS KO UPLOAD KARNAY KA SILSILA SHURU KEA . ❤😢
عبدالاحد بن مولوی محمد فائق جس نے مناجان کے حالات میں فارسی زبان میں ایک کتاب موسوم بہ وقائع دل پذیر لکھی ہے اور جس سے ہم نے یہ حالات اخذ کئے ہیں وہ کہتا ہے کہ اس زمانۂ سلطنت میں اس رسم نے ایسی اشاعت پائی کہ اکثر شہر کی عورتیں اچھوتی کے لقب سے ملقب ہیں بلکہ اسی علامت سے پہچانی جاتی ہیں اور ان کے خاندان کے مردوں نے تفاخر کی راہ سے رجولیت کو انوثت (مردوں کا زنانہ عادات و اطوار اختیار کرنا) سے بدل ڈالا ہے اور عورتوں کی طرح بات چیت کرتے ہیں اور ویسے ہی اطوار میں رہتے ہیں۔ عروسی ائمہ کی تاریخیں کتب تواریخ سے نکال کر بادشاہ ان دنوں میں رسوم ساچق اور حنابندی ادا کرتے ہیں چنانچہ بادشاہ کی ایک خاص خادمہ عورت عبدالاحد سے بیان کرتی تھی کہ یکم محرم کو کہ دن نکاح سیدۃ النساء کا ہے مسہری زرنگار پر زیور طلاء اور جواہر بیش بہا سے دو پیکر ایسے تیار کرائے جاتے کہ دیکھتے ہی یہ گمان ہوتا تھا کہ یہ دو انسان لیٹے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کو جناب امیر المومنین علی اور دوسرے کو بی بی فاطمہ قرار دیتے اور ان کا نکاح پڑھایا جاتا اور بادشاہ ان کو نذر دکھاتے اور تھوڑی دیر سامنے دست بستہ کھڑے رہتے پھر میوؤں اور حلوؤں اور عمدہ عمدہ کھانوں کے خوان سامنے آتے اور ان پر فاتحہ پڑھوا کر تمام محل کے آدمیوں کو تقسیم کرائے جاتے۔ بادشاہ بیگم نے نصیر الدین حیدر کی پہلی سال مسند نشینی میں حکم دیا کہ تمام ساکنان سلطنت سیاہ پوشی اور عزاداری کی رسم عمل میں لایا کریں اور چہلم تک بیاہ و نکاح اور دیگر لوازم شادی کو ترک کردیا کریں ورنہ سزاء ہوگی چونکہ تعمیل اس حکم کی تکلیف سے خالی نہ تھی اس لئے رزیڈنٹ کی طرف سے اس حکم کے نفاذ کی ممانعت آئی مگر بادشاہ بیگم نے نہ مانا اور کہا کہ میں نے اپنی قید کے ایام میں اس امر کی نذر مانی تھی کس طرح اس کے خلاف عمل میں لاؤں ۔ آخر الامر بہزار جرثقیل بادشاہ نے خود بدولت یہ قرار دیا کہ میں وفا سے نذر کے لئے خود چہلم تک عزاداری کرتا رہوں گا اور دوسرے بندگان خدا کو اختیار ہے ہماری طرف سے کسی پر جبر وتحکم نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ بادشاہ بیگم کی تعلیم سے بادشاہ عمر بھر ایسے رسوم کے ادا کرنے میں اتنے منہمک رہے کہ انتظام مالی و ملکی کی طرف ذرا توجہ نہ دے سکے۔ بادشاہ نے فرح بخش میں محل زنانے کے قریب ایک عالیشان مکان تعمیر کرایا جس میں بارہ کمرے نہایت شاندار اور وسیع رکھے گئے اور اس مکان کا نام درگاہ دوازدہ امام مشہور تھا قیمتی شامیانے زربفت کے پر تکلف جن میں آبدار موتیوں کی جھالریں کلابتون اور باد کے سے ٹکی ہوئی تھیں۔ چاندی کے ستونوں پر جن پر طلائی کام تھا استادہ تھے اور جھاڑ جن میں چالیس کنول شمع دار روشن ہوتے تھے سونے کے کام کے نہایت خوشنما وہاں رکھے گئے اور نفیس فرش اور قد آدم آئینے نصب کئے گئے اور ہر جگہ ضریح سونے چاندی کی رکھی گئی اور ہر امام کی ولادت کی تاریخ پر اس امام کے نام نہاد مکان میں خوشی کا جلسہ ہوتا اس طرح ہر امام کی شہادت اور وفات کی تاریخ میں حسب قاعدہ عزاء کی مجلس برپا ہوتی تھی اور ایک بارگاہ پھولوں کی نہایت خوشنما تیار ہوتی تھی باغات سلطانی میں جتنے خوشبو دار پھول پیدا ہوتے وہ اور ان کے سواء بازاروں سے پانچ ہزار روپے روز کے پھول عشرہ محرم تک مول آتے تھے۔ اس زمانے میں خوشبو دار پھول بڑے آدمیوں کو بھی مشکل سے ملتے تھے اس بارگاہ کا طول سو قدم سے کم نہیں ہوتا تھا اور عرض پندرہ بیس قدم سے زیادہ ہوتا تھا اور کبھی طلائی و نقرئی مقیشاور ستاروں اور بادلے کی جھالریں پھولوں کی جگہ کام میں لائی جاتی تھیں عطریات سے وہ مکان بسایا جاتا تھا۔ غرض کہ ہر امام کی ولادت کی تقریب میں پہلے دن سے چھ دن تک برابر اور ہر امام کی وفات کے دنوں میں کئی روز تک اور سید الشہدا کی شہادت کے زمانے میں چہلم تک بادشاہ نے اپنے اوپر یہ لازم کرلیا تھا کہ بہ نفس نفیس و ہاں کی خدمت ہزار جان و دل سے فرماتے تھے۔ خواجہ سرا اور خواصین وغیرہ اکثر عورتیں ان محلوں اور مجلسوں میں شریک ہوتی تھیں عملۂ ملازمین کی رسائی وہاں تک بہت کم تھی زچہ خانون میں نفیس اور خوشگوار کھانے اور شیر ینیاں اور عمدہ میوے اور پرتکلف پوشاکیں صرف ہوتی تھیں اور وفات و شہادت کے دنوں میں مرثیہ خوانی ہوتی اور شربت اور مٹھائی اور میوہ صرف ہوتا ان مصارف میں چار پانچ لاکھ روپیوں سے کم خرچ نہ ہوتے تھے بلکہ زیادہ تصور کرنا چاہئے اور بیگمات بھی ان تقریبوں میں آتی تھیں بادشاہ کا اعتقاد ان کاموں میں ایسے غلو کے ساتھ تھا کہ محرم کی پہلی تاریخ کو سو پچاس تعزیے در دولت سے مقام معہودتک اپنے سر پر رکھ کر پہنچاتے تھے ہر مرتبہ کی آمد و رفت میں کئی کوس زمین پیادہ پا طے ہوتی تھی اور یہ آنا جانا کنکریوں کی زمین پر برہنہ پا ہوتا تھا یہاں تک کہ تلوؤں میں وہ کنکریاں کانٹوں کی طرح کھٹکتی تھیں اور اس برہنہ پائی کی وجہ زبان مبارک سے یوں ارشاد فرماتے تھے کہ حضرت امام سجاد نے کربلا اور کوفے سے شام تک ننگے پاؤںزمین طے کی تھی جنگلی کانٹے ان کے نازک تلوؤں میں چھبے تھے چونکہ میں بھی محب ان کا اور شیعہ مذہب ہوں کیوں کر تکلیف گوارا نہ کروں اور چہلم تک فرش زمین پر سوتے تھے بادشاہ بیگم اور قدسیہ محل اور ملکہ زمانی وغیرہ بیگمات طلائی اور نقرئی طوق اور زنجیریں بادشاہ کی گردن اور کمر اور پاؤں میں پہناتی تھیں جو حقیقت میں کئی سیر بوجھ ہوجاتا تھا اور ایام مقررہ کے بعد یہ سب چاندی سونا انعام میں دے دیا جاتا تھا اور محرم کے دنوں میں تمام راتیں بیداری میں کاٹتے تھے شام سے صبح تک ہر محل میں اکثر خود بدولت اور کمتر خواجہ سرا مرثیہ خوانی و نوحہ خوانی کرتے پھرتے تھے۔ غرض چالیس دن بادشاہ کو روتے کٹتے تھے گو دختر رزپر ہزار جان و دل سے شیدا تھے مگر چہلم تک محترزرہتے تھے ،بہرحال آدھا سال رونے پیٹنے میں عزاداری کے ساتھ گذرتا تھا۔