New Superhit Kalam 2020 Alwedai Tarana Madarsa Baitululoom Saraimeer Azamgarh Up India Write By Maulana Mahmood Alam Sahab Balyavi DB Voice Shabbir Ahmad Muzaffarpuri sufiyaanhaider2@gmail.com
*السند المتصل للبخاري الشريف للطلاب للمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند* الحمد الله رب العالمین والصلاة والسلام علی خیرخلقه سیدنا ومولانا محمدوآله وأصحابه أجمعین ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین أما بعد فإن أصدق الحدیث کتاب الله وأحسن الھدی ھدی سیدنا ومولانا محمد صلى الله علیه وسلم وشرالأمور محدثا تھا وکل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة في النار. باب قول الله تعالی ونضع الموازین القسط لیوم القیامة وأن أعمال بنی آدم وقو لھم یوزن وقال مجاھد القسطاس العدل بالرومیة ویقال القسط مصدر المقسط وھوالعادل وأماالقاسط فھوالجائر، حدثنا فضیلة الشیخ الأستاذ عبدالرشید السلطان فوري المظاھري أدام الله بقائھم وأکرم مثواهم في الدارین، وحدثنا فضیلة الشیخ المفتي الأستاذ محمد أحمدالله الفولفوري أدام ا لله بقائھم وأکرمھم في الدارین قال حدثنا أبی فضیلة الشیخ محسن الامة محمد عبدالله الفولفوري تغمد الله بغفرانه ورفع درجته، قال الشیخ عبدالرشید والشیخ المفتي محمد عبداللہ الفولفوري،کلاھما - حدثنا الشیخ أمیرالمؤمنین في الحدیث في عصرہ محمدیونس الجونفوري تغمدالله بغفرانه ورفع درجته،عن الشیخ محمد زکریاالمھاجرالمدني، عن الشیخ الأستاذ خلیل أحمد المھاجرالمدني،وعن الشیخ الأستاذ محمد یحیی الکاندھلوي،عن فضیلة الشیخ سیدالفقھاءوالعلماء الأستاذ رشید الجنجوھي،عن الشیخ عبدالغني المجددي، عن الشیخ الأستاذالإمام الحجة الشاہ محمد إسحاق الدھلوي ثم المکي،عن الشیخ الشاہ عبدالعزیز المحدث الدھلوي ،عن الشیخ العارف باللہ الشاہ ولي الله أحمدبن عبدالرحیم الدھلوي:قال أخبرناالشیخ أبوالطاھرمحمدبن إبراھیم الکردي،قال أخبرناالشیخ أحمدبن عبدالقدوس أبوالمواھب الشناوي قال أخبرناالشیخ شمش الدین محمدبن أحمدبن محمد الرملي،عن الشیخ زکریابن محمدبن أبی یحیی الأنصاري قال قرأت علی الشیخ الحافظ الحجة شھاب الدین أحمدبن علي بن حجرالعسقلاني، عن الشیخ إبراھیم بن أحمدالتنوخي،عن الشیخ العباس الحجار أحمدبن أبي طالب، عن الشیخ السراج الحسین ابن المبارک، عن الشیخ عبدالاول ابن عیسی الھروي،عن الشیخ عبدالرحمن مظفرالداؤدي،عن الشیخ عبدالله أحمدا السرخسي،عن الشیخ أبي عبدالله محمدبن یوسف الفربري،عن الإمام الجلیل الھمام الحافظ الحجة الجامع الصحیح البخاري أمیرالمؤمنین في الحدیث أبي عبدالله محمدبن اسماعیل بن إبراھیم بن المغیرة بن بردزبة الجعفي الیماني البخاري رحمھم الله تعالی ونفعنا بعلومہ وعلومھم اجمعین آمین یارب العلمین
ماشاءاللہ سبحان اللہ الحمدلللہ اللہ تبارک و تعالی آپ کو لمبی عمر ودراز عطا کریں اور اللہ رب العزت آ پ کو اور کثیر ترققیات سے نوا زیں آمین ثم آمین یا رب العالمین ماشاءاللہ
ماشاءاللہ تبارک اللہ آہ حضرت مفتی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے
امام قاسم نانوتوی رحمہ پر پہلا عالمی سیمینار ٢٠--٢٢ مئی ٢٠٠٠ كو عالم اسلام کے عظیم دارالعلوم دیوبند کے بانی أمام محمد قاسم نانوتوی رحمہ کی حیات ، شخصیت ، خدمات شان کی فکر و نظر اور بر صغیر کے مسلمانوں کی دینی ، علمی اور اجتماعی زندگی پر ان کے دور رس اثرات کی تفہیم و تشریح کے لیے یہ عالمی سیمینار منعقد کی گیا تھا ۔ اس سیمینار کا انعقاد تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند ، دہلی نے کیا تھا ۔ بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں اس سیمینار کا انعقاد کی سخت ضرورت تھی تاکہ گزشتہ خدمات کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کیا سکے ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ان دنوں دہلی میں تھا ۔ میں نے افتتاحی اجلاس اور دو دن ہمدرد یونیورسیٹی کے شاندار ہال میں منعقد ہونے والے دو روزہ سیمینار میں شرکت کی ۔ افتتاحی جلسہ دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں ہوا ۔ اسٹیڈیم دارالعلوم کے فارغین ، طلباء اور حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں نے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اس کانفرنس کو اکیسویں صدی کا تقاضا اور اہم ضرورت قرار دیا ۔ افتتاحی اجلاس میں مختلف مقررین کو مختلف موضوعات دیے گئے تھے ۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی کو تحریک ولی اللہی سرچشمہ تحریک دارالعلوم دیوبند ، مولانا انظر شاہ کشمیری کو تحریک دیوبندی ، مولانا وحید الدین خان کو تحریک مدارس ، مولانا ولی رحمانی کو دور حاضر میں فکر قاسمی کی اہمیت و افادیت اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کو علماء دیوبنداور دور حاضر کے چیلنج و تقاضے وغیرہ ۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات کہی گئی کہ : ہندستان میں مسلم حکومت کے ختم ہوجانے اور انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ کی وجہ سے امام نانوتوی رحمہ سخت غم و اندوہ اور فکر و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ مسلم حکومت کے ختم ہوجانے کی وجہ سے ان کو برصغیر بر صغیر میں دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو بچانے کی فکر دامنگیر ہوگئی ۔ مسلمان مغلوب و محکوم ہوچکے تھے ۔ حالات بہت تشویشناک اور مستقبل پر خطر نظر آرہا تھا ۔ ان کے دل دردمند پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں اللہ نے دل دردمند دیا ہے اور جنہیں امہ مسلمہ کے دین و ایمان ، اسلامی شریعت اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں ۔ ایسے انتہائی پریشان کن اور تشویشناک حالات میں امام ناناوتی رحمہ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تھی ۔ یہ صرف ایک علمی درسگاہ نہیں تھی جہاں سے علم و عمل کے سوتے پھوٹتے ہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ دارالعلوم دیوبند کی اس عالمی تحریک نے دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور امہ مسلمہ کے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے عظیم الشان تاریخی کردار ادا کیا ۔ مولانا نظام الدین رحمہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ مولانا قاسم نانوتوی تیرھویں صدی ہجری کے ایک ممتاز ، بالغ النظر عالمی دین اور عبقری شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک دارالعلوم دیوبند نے مختلف محاذوں پر امہ مسلمہ کی صحیح قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے منصوبہ بند کوششیں کی ہیں ۔ مولانا محمد عبد اللہ مغیثی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ آج سےتقریبا ڈیرھ صدی پہلے جن پر خطر حالات میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ نے تحریک دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تھی اس نےاحیاء اسلام اور احیاء امہ کے ساتھ گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں برصغیر ہند کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو باقی رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ شیخ الحدیث مولانا انظر شاہ کشمیری رحمہ نے اپنے کلیدی خطبہ میں امام قاسم نانوتوی رحمہ کی عظیم الشان تاریخی خدمات ، ان کی علمی بصیرت اور دور رس نگاہ کا ذکر کرتے ہوئے انہیں برصغیر کی ایک عبقری شخصیت قرار دیا ۔ انہوں نے تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم کے ذمہ داروں سے اپیل کی کہ اتر پردیش مذہبی عمارات بل کے سلسلے میں علماء ، دانشوروں اور مختلف مکاتب فکر کے وفد کے ساتھ عزیر اعظم سے ملاقات کریں اور انہیں اپنا مقدمہ سمجھائیں تاکہ وہ اس بل کے تعلق سے مسلمانوں کی بے چینی اور اضطراب کا اندازہ کرتے ہوئے اس کے از آلے کی کوشش کریں ۔ یہ بل ہمارے مکاتب ، مدارس اور مذہبی مراکز کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ آج امہ مسلمہ علاقائی اور عالمی طور ہر جہت سے انتہائی پر خطر حالات میں گھری ہوئی ہے ۔ ہمارے دین اور تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی پوری تیاریاں کی جاچکی ہیں ۔ ہماری شریعت ، ہمارے مدارس و دینی مراکز اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس لیے ان پر خطر حالات کا شدید تقاضا ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور درپیش مسائل اور حالات کا منصوبہ بندی کے ساتھ مقابلہ کریں ۔ علماء ، مفکرین اور دانشوروں نے موجودہ پر خطر حالات کے تناظر میں اتحاد و اتفاق کو وقت کا جبری تقاضا بتایا ، مختلف مکاتب فکر کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی خلیج کا پاٹنے پر زور دیا ، باہمی افتراق و انتشار کو ختم کرنے کی بات کی ۔ کہا گیا کہ ہم اپنی توانائیاں باہمی تصادم اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہونے میں صرف کر رہے ہیں ۔ در حقیقت اتحاد و اتفاق ، یک جسم و جان اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ : " اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی ہوگئے " ۔ یہ نعمت ہجرت کے بعد صحابہ کرام کو ملی تھی ۔ اتحاد و اتفاق ہی کے ذریعہ کارہائے عظیم انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق ایک ایسی قوت ہے جس سے ہم اپنے اعداء اور اعداء اسلام کے نا پاک عزائم اور منصوبے کو خاک میں ملا سکتے ہیں ۔ قوموں کے عروج و زوال ، ترقی و تنزلی میں اتحاد و اتفاق ، مقاصد میں یکجہتی و ہم آہنگی اور اجتماعیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ ایک زندہ و باوقار ، متحرک و فعال قوم کی علامت ہی یہی ہے کہ وہ باہمی اختلافات و انتشار کو ختم کرکے اور باہم مل کر ایک ساتھ شانہ سے شانہ ملاکر کام کرتی ہے ۔ امہ مسلمہ کا تحفظ اختلافات کا خاتمہ اور اتحاد کے فروغ میں مضمر ہے ۔ یہ عصر حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ اس کا بار بار اظہار کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com