*Real Meaning of Takbeer - Allahu Akbar* بیان القرآن : ڈاکٹر اسرار احمد *سورۃ الإسراء 111* وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا: صرف زبان سے ”اللہ اکبر“ کہہ دینے سے اللہ کی تکبیر نہیں ہوجاتی اس کے لیے عملی طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان سے اللہ اکبر کہنا تو تکبیر کا پہلا درجہ ہے کہ کسی نے زبان سے اقرار کرلیا کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد اہم اور کٹھن مرحلہ اپنے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کو عملی طور پر بڑا کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ تب طے ہوگا جب ہمارے گھر میں بھی اللہ کو بڑا تسلیم کیا جائے گا اور گھر کے تمام معاملات میں اسی کی بات مانی جائے گی جب ہماری پارلیمنٹ میں بھی اس کی بڑائی کو تسلیم کیا جائے گا اور کوئی قانون اس کی شریعت کے خلاف نہیں بن سکے گا جب ہماری عدالتوں میں بھی اس کی بڑائی کا ڈنکا بجے گا اور تمام فیصلے اسی کے احکامات کی روشنی میں کیے جائیں گے۔ غرض جب تک ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اور ہر کہیں اس کا حکم آخری حکم کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اللہ کی تکبیر کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اللہ کے احکام کو عملی طور پر نافذ نہ کرنے والوں کے لیے سورة المائدۃ کا یہ حکم بہت واضح ہے : ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ آج ہم نے اللہ کو نعوذ باللہ اپنے تئیں مسجدوں میں بند کردیا ہے کہ اے اللہ آپ یہیں رہیں ہم یہیں پر آکر آپ کی تکبیر کے ترانے گائیں گے آپ کی تسبیح وتحمید کریں گے۔ لیکن مسجد سے باہر ہماری مجبوریاں ہیں۔ کیا کریں مارکیٹ میں مالی مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں گھر میں بیوی بڑی ہے کسی اور جگہ کوئی اور بڑا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ہاں اللہ کی تکبیر کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے اور اب تکبیر فقط دو الفاظ اللہ اکبر پر مشتمل ایک کلمہ ہے جسے زبان سے ادا کردیں تو گویا اللہ کی بڑائی کا حق ادا ہوجاتا ہے۔ #exploreourdeen#reminder
Brother you are really doing an appreciable job may Allah(SWT) give you reward in this duniya and hereafter . May this work become a safqae jariyah for you . Praying for you right from my heart❤ ❤ From pulwama kashmir.
Asalamualaikum. MashaAllah. My search for finding the real meaning of Takbeer ended here. I was wondering what does it really mean. After all Allah is the greatest anyway. Highly thankful to you all. JazakaAllah Khairan.
نبی کریم ﷺ نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے? یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے ۔ پھر ( دوبارہ آنے کی ) اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے ، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی ۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا ۔ چنانچہ اس دن وہ مغرب ہی سے نکلے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان (سورۃ یٰسٓ آیت 38 ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 3199