"غم سے بچنے کو غمِ شبّیر(ع) اے دل چاہیے"
کلام: تجمّل لکھنوی
نوحہ خواں: اُستادِ نوحہ خوانی سید صادق حسین "چھجّن" صاحب مرحوم
صاحبِ بیاض(انجمنِ عابدیہ کاظمیہ)
بشکریہ zuljana.com
======================
غم سے بچنے کو غم _ شبّیر اے دل چاہیے
جس کو طوفاں چُھو نہیں سکتا وہ ساحل چاہیے
ماتم _ سبط _ نبی میں سعیء کامل چاہیے
شہ کے رونے والے ہر آنسو میں اک دل چاہیے
شہ کا داغ_ غم برائے زینت_ دل چاہیے
آسمان_ عشق پر اک ماہ_ کامل چاہیے
نہر سے پیاسا پلٹنا کام تھا عبّاس کا
تشنہ لب دریا پہ رہنے کے لیے دل چاہیے
شہ پہ یہ کہہ کر ہوئے سینہ سپر انصار _ شہ
درمیان_ کفر و ایماں حدّ_ فاصل چاہیے
کربلا کی زحمتیں دیکھیں تو بولے انبیا
ان مصائب کے لیے شبّیر کا دل چاہیے
کلمہ پڑھ لینا نہیں ہے صرف فرض_ منصبی
اے مسلماں ! امتیاز _ حق و باطل چاہیے
حشر تک روشن رہے داغ _ غم _ سبط_ نبی
جو نہ ہو گُل وہ چراغ _ راہ_ منزل چاہیے
چشم _ نم ! صرف ایک آنسو کی تمنّا ہے مگر
ماتم _ فرزند_ پیغمبر کے قابل چاہیے
کربلا سر کس سے ہو سکتی بجز سبط_ نبی
حلّ_ مشکل کے لیے حلّال_ مشکل چاہیے
کربلا کی آرزو کیونکر تجمّل کو نہ ہو
کشتی_ عمر _ رواں کہتی ہے ساحل چاہیے
(تجمّل لکھنوی)
20 сен 2024