Young man very good presentation You have brought back some old memories in 1973 my grand dad was also transporter route Palau to jehlum keep up the good work اللہ give u loads of success in your work
میں نے سکول اور کالج کے زمانے میں ان کی بس پر سفر کیا ئے ان کی ایک بس تھی جس کے اندر یہ شعر لکھا ہوا تھا پھول سجھایا دامن میں زخموں کی پہچان نہیں جو کسی کا درد نہ جانے وہ پتھر ے انسان نہیں
نبیل بھائی سنا ہے ایک بس اب بھی ہے جو دن میں کسی وقت پنڈی سے کوٹلی جاتی ہے۔۔اس میں سفر کرکے وی لاگ بنائیں ۔کچھ پرانے بزرگوں سے گپ شپ کریں ۔۔۔۔۔۔جو سفر کررہے ہیں انہوں نے بس کس کیوں چنا؟؟؟ مشکور رہیں گے