Тёмный

Hassan Kuzagar | Nazam | Noon Meem Rashid | Zia mohiuddin | Urdu/Hindi | 

Aqdas Bin faisal
Подписаться 38 тыс.
Просмотров 41 тыс.
50% 1

Subscribe My RU-vid Channel & Press The Bell Icon Button For More Latest Update
.
Follow on Instagram :
www.instagram....
.
Facebook :
/ aqdaswrites
.
.
.
.
.
CONTENT DISCLAIMER
This video is only made for educational and entertainment purposes, so please don't use misuse. As well as only follow the instruction, visual or verbal on the video at your own risk, we will not be held responsible for any loss or damage.
Due to the social nature of this broadcasting channel videos may contain content copyrighted by another entity or person. This channel's owner claims no copyright to said content. The broadcaster of this channel cannot be held accountable for the copyrighted content. The broadcaster of this channel is a messenger and sharer of information and strives to verify, but cannot warrant the accuracy of copyrights or completeness of the information on this channel. If you have a complaint about something or find your content is being used incorrectly, PLEASE CONTACT THE BROADCASTER PRIOR TO MAKING A COPYRIGHT CLAIM. Any infringement was not done on purpose and will be rectified to all parties’ satisfaction.
#urdupoetry #urduadab #urduposts #urduqoutes #urdushayari #urdushayri #urdusadpoetry #urdusadpoetry #urduquotes #urduquotes #urdupoetryworld #urdulines #urduliterature #urdushairi #urduthoughts #urdupoetrylovers #urduzone #urdughazal #aqdasbinfaisal
#urdupoetry #urdupoetryworld #urdupoetry #urdushayari #urdupoetrylines #urdupoet #urdupoint #urdupoint #urdupoetrylover #urdupoetrylovers #urdupoetrycorner #urdupoetrypk #urdupoetrycommunity #2linespoetry #2linesurdushayari #urdupoetryvideo #urduadab #urduadabshayri #urduquotes #fbaqdaswrites #aqdasbinfaisal
#jaunelia #farazahmadfaraz #wasifaslam #parveenshakir #nadeembhabha #azharfaragh #tehzeebhafipoetry #india

Опубликовано:

 

9 сен 2024

Поделиться:

Ссылка:

Скачать:

Готовим ссылку...

Добавить в:

Мой плейлист
Посмотреть позже
Комментарии : 36   
@EjazAbbasi002
@EjazAbbasi002 11 месяцев назад
ن م راشد جیسی نظم کوئی لکھ نہیں سکتا اور ضیا محی الدین جیسا کوئی پڑھ سکتا۔
@InnocentgirlInnocentgirl-bx3nn
@InnocentgirlInnocentgirl-bx3nn Месяц назад
Enki awaz or background music 🎶 ufff kia kehny :⁠-⁠)
@alifseiftikhar
@alifseiftikhar Год назад
RIP legend ....... Aapki aawaz hamesha zinda rahegi 💚💚
@Muhammad_shafee
@Muhammad_shafee Год назад
@InnocentgirlInnocentgirl-bx3nn
@InnocentgirlInnocentgirl-bx3nn Месяц назад
Hayeee Kamal 😌🥀
@MHarisAjmal
@MHarisAjmal Месяц назад
🍂❤️🍂
@heartisariver7589
@heartisariver7589 2 года назад
Zia sir apko allah ne esi zuban ata ki bs mere rab ka lakh ahsan
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
(1) حسن کوزہ گر ن م راشد جہاں زاد نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں! تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف کی دکان پر میں نے دیکھا تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں جہاں زاد نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں! یہ وہ دور تھا جس میں میں نے کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے حسن کوزہ گر اب کہاں ہے؟ وہ ہم سے خود اپنے عمل سے خدا وند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں! جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے تغاروں میں مٹی کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں سنگ بستہ پڑی تھی صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں مری ہیچ مایہ معیشت کے اظہار فن کے سہارے شکستہ پڑے تھے میں خود میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برہنہ سر چاک ژولیدہ مو سر بہ زانو کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے گل و لا سے خوابوں کے سیال کوزے بناتا رہا تھا جہاں زاد نو سال پہلے تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی کہ میں نے حسن کوزہ گر نے تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں میں دیکھی ہے وہ تابناکی کہ جس سے مرے جسم و جاں ابر و مہتاب کا رہگزر بن گئے تھے جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات وہ رود دجلہ کا ساحل وہ کشتی وہ ملاح کی بند آنکھیں کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے ایک ہی رات وہ کہربا تھی کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود اس کی جاں اس کا پیکر مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے! جہاں زاد اس دور میں روز ہر روز وہ سوختہ بخت آ کر مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بہ زانو تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی (وہی چاک جو سال ہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!) وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی حسن کوزہ گر ہوش میں آ حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر یہ بچوں کے تنور کیونکر بھریں گے حسن اے محبت کے مارے محبت امیروں کی بازی حسن اپنے دیوار و در پر نظر کر مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے کسی ڈوبتے شخص کو زیر گرداب کوئی پکارے! وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان خرابوں کا مجذوب تھا جن میں کوئی صدا کوئی جنبش کسی مرغ پراں کا سایہ کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا! جہاں زاد میں آج تیری گلی میں یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں ترے در کے آگے کھڑا ہوں سر و مو پریشاں دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں مجھے آج پھر جھانکتی ہیں زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں میں انساں ہوں لیکن یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے! حسن کوزہ گر آج اک تودۂ خاک ہے جسم میں نم کا اثر تک نہیں ہے جہاں زاد بازار میں صبح عطار یوسف کی دکان پر تیری آنکھیں پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں ان آنکھوں کی تابندہ شوخی سے اٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے! تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر وہی کوزہ گر جس کے کوزے تھے ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب کہ میں اس گل و لا سے اس رنگ و روغن سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے دلوں کے خرابے ہوں روشن!
@rehmatkhan5445
@rehmatkhan5445 Год назад
آہ ہ ہ ہ
@tahirjamil7728
@tahirjamil7728 6 месяцев назад
کمال
@zoraizmohsin935
@zoraizmohsin935 Год назад
bhai music barha do, abhi nazam thori si sunai de rahi hai
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
(3) حسن کوزہ گر ن م راشد جہاں زاد وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن تمام رات تیرتے رہے تھے ہم ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوال عمر کے خلاف تیرتے رہے تو کہہ اٹھی: 'حسن یہاں بھی کھینچ لائی جاں کی تشنگی تجھے!' (لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا میں کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں سے شاد کام ہوگیا!) مگر یہ وہم دل میں تیرنے لگا کہ ہو نہ ہو مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں کہ اب بھی ربط جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے یہی وہ اعتبار تھا کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا میں سب سے پہلے 'اپ 'ہوں اگر ہمیں ہوں تو ہو اور میں ہوں پھر بھی میں ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں! اگر میں زندہ ہوں تو کیسے آپ سے دغا کروں؟ کہ تیرے جیسی عورتیں، جہاں زاد، ایسی الجھنیں ہیں جن کو آج تک کوئی نہیں 'سلجھ' سکا جو میں کہوں کہ میں 'سلجھ' سکا تو سر بسر فریب اپنے آپ سے! کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر جواب جس کا ہم نہیں (لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر تیرے لب پہ تھا وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا لبوں کو نوچتا رہا جو میں کبھی نہ کر سکا نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاط ناب کا جو صد نوا و یک نوا خرام صبح کی طرح لبیب ہر نوائے ساز گار کی نفی سہی!) مگر ہمارا رابطہ وصال آب و گل نہیں، نہ تھا کبھی وجود آدمی سے آب و گل سدا بروں رہے نہ ہر وصال آب و گل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا جو ان کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے! جہاں زاد، ایک تو اور ایک وہ اور ایک میں یہ تین زاویے کسی مثلث قدیم کے ہمیشہ گھومتے رہے کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے مثلث قدیم کو میں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلث قدیم کا نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں گھومتے ہوئے سبو و جام پر ترا بدن ترا ہی رنگ تیری نازکی برس پڑی وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی میں سیل نور اندروں سے دھل گیا! مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی! تمام کوزے بنتے بنتے 'تو' ہی بن کے رہ گئے نشاط اس وصال رہ گزر کی نا گہاں مجھے نگل گئی یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ کہ جب خمیر آب و گل سے وہ جدا ہوئے تو ان کو سمت راہ نو کی کامرانیاں ملیں میں اک غریب کوزہ گر یہ انتہائے معرفت یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت مجھے ہو اس کی کیا خبر؟ جہاں زاد انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر جو نو برس کے دور نا سزا میں تھا؟ اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا نہ گمرہی کی رات کا شب گنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا وہ خود گناہ بن گئیں! حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا اک انتظار بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا! کبھی جو چند ثانیے زمان بے زماں میں آ کے رک گئے تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اتر گیا تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں کے سست قافلے مرے دروں میں جاگ اٹھے مرے دروں میں اک جہان باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اٹھی بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں! میں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہوا غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو مرے وجود سے بروں تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے میرے اپنے آپ سے فراق میں وہ پھر سے ایک کل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح) وہ پھر سے ایک رقص بے زماں بنے وہ رویت ازل بنے!
@muhammadfarhad1522
@muhammadfarhad1522 Год назад
KmaaaaaL.......👌👌
@yograjsenkeshyari7407
@yograjsenkeshyari7407 3 месяца назад
One of the best poem
@syedzakir1863
@syedzakir1863 Год назад
Sir aap se darhkwast hai ke NET urdu ki tamam nazme aapki awaz me banaye
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
(حسن کوزہ گر (4 ن م راشد جہاں زاد کیسے ہزاروں برس بعد اک شہر مدفون کی ہر گلی میں مرے جام و مینا و گل داں کے ریزے ملے ہیں کہ جیسے وہ اس شہر برباد کا حافظہ ہوں حسن نام کا اک جواں کوزہ گر اک نئے شہر میں اپنے کوزے بناتا ہوا عشق کرتا ہوا اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے ہمیں میں کہ جیسے ہمیں ہوں سمویا گیا ہے کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے ہزاروں برس رینگتی رات بھر اک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں بناتے رہے ہیں اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں جہاں زاد یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ کوزوں کی لاشوں میں اترا ہے دیکھو یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں کبھی جام و مینا کی لم تک نہ پہنچیں یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں کو پھر سے الٹنے پلٹنے لگے ہیں یہ ان کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے جو تاریخ کو کھا گئی تھیں وہ طوفان وہ آندھیاں پا سکیں گے جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں انہیں کیا خبر کس دھنک سے مرے رنگ آئے مرے اور اس نوجواں کوزہ گر کے انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے انہیں کیا خبر کون سے حسن سے کون سی ذات سے کس خد و خال سے میں نے کوزوں کے چہرے اتارے یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں زمانہ جہاں زاد افسوں زدہ برج ہے اور یہ لوگ اس کے اسیروں میں ہیں جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے! یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن ہیں جویا کسی عظمت نارسا کے انہیں کیا خبر کیسا آسیب مبرم مرے غار سینے پہ تھا جس نے مجھ سے اور اس کوزہ گر سے کہا اے حسن کوزہ گر جاگ درد رسالت کا روز بشارت ترے جام و مینا کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے یہی وہ ندا کے پیچھے حسن نام کا یہ جواں کوزہ گر بھی پیاپے رواں ہے زماں سے زماں تک خزاں سے خزاں تک جہاں زاد میں نے حسن کوزہ گر نے بیاباں بیاباں یہ درد رسالت سہا ہے ہزاروں برس بعد یہ لوگ ریزوں کو چنتے ہوئے جان سکتے ہیں کیسے کہ میرے گل و خاک کے رنگ و روغن ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر ابد کی صدا بن گئے تھے میں اپنے مساموں سے ہر پور سے تیری بانہوں کی پہنائیاں جذب کرتا رہا تھا کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں حسن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے یہ اس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک خزاں سے خزاں تک جو ہر نوجواں کوزہ گر کی نئی ذات میں اور بڑھتا چلا جا رہا ہے! وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت ہمہ عشق ہیں ہم ہمہ کوزہ گر ہم ہمہ تن خبر ہم خدا کی طرح اپنے فن کے خدا سر بسر ہم آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے جو دیکھے بھی نہ ہوں کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ ان کا کہاں سے پائے کس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی یہ کوزوں کے لاشے جو ان کے لیے ہیں کسی داستان فنا کے وغیرہ وغیرہ ہماری اذاں ہیں ہماری طلب کا نشاں ہیں یہ اپنے سکوت اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھلی ہیں تمہیں دیکھتی ہیں ہر اک درد کو بھانپتی ہیں ہر اک حسن کے راز کو جانتی ہیں کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اس رات کی آرزو ہیں جہاں ایک چہرہ درختوں کی شاخوں کے مانند اک اور چہرے پہ جھک کر ہر انسان کے سینے میں اک برگ گل رکھ گیا تھا اسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
2)حسن کوزہ گر ن م راشد اے جہاں زاد، نشاط اس شب بے راہ روی کی میں کہاں تک بھولوں؟ زور مے تھا کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا تجھے حیرت نہ ہوئی! کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت تجھے حیرت نہ ہوئی! اے جہاں زاد، میں کوزوں کی طرف اپنے تغاروں کی طرف اب جو بغداد سے لوٹا ہوں تو میں سوچتا ہوں سوچتا ہوں تو مرے سامنے آئینہ رہی سر بازار دریچے میں سر بستر سنجاب کبھی تو مرے سامنے آئینہ رہی جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے اپنی ہی صورت کے سوا اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا! لکھ رہا ہوں تجھے خط اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں اب ایک ہی صورت کے سوا! لکھ رہا ہوں تجھے خط اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟ لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے خط کیوں نہ لکھوں؟ اے جہاں زاد، نشاط اس شب بے راہ روی کی مجھے پھر لائے گی؟ وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟ وقت اک ایسا پتنگا ہے جو دیواروں پہ آئینوں پہ پیمانوں پہ شیشوں پہ مرے جام و سبو میرے تغاروں پہ سدا رینگتا ہے رینگتے وقت کے مانند کبھی لوٹ کے آئے گا حسن کوزہ گر سوختہ جاں بھی شاید! اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد تو میں سوچتا ہوں! شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی جسے تنتی چلی جاتی ہے وہ جالا تو نہیں ہوں میں بھی؟ یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پڑا سوچتا ہوں میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی بس ایک نشانی ہے یہی ان کے فن ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت آ کے مجھے دیکھتی ہے دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں کھیل اک سادہ محبت کا شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی کھیلتے ہیں کبھی رو لیتے ہیں مل کر کبھی گا لیتے ہیں اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں حرف سرحد ہیں جہاں زاد معانی سرحد عشق سرحد ہے جوانی سرحد دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں درد محرومی کی تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟ میرے اس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں در و دیوار سے لپٹی ہوئی اس گرد کی خوشبو بھی ہے میرے افلاس کی تنہائی کی یادوں کی تمناؤں کی خوشبوئیں بھی پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے گندہ ہے پراگندہ ہے ہاں کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے کبھی انجیروں کے زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے تو میں جی اٹھتا ہوں تو میں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا! ورنہ اس گھر میں کوئی سیج نہیں عطر نہیں ہے کوئی پنکھا بھی نہیں، تجھے جس عشق کی خو ہے مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں! تو ہنسے گی اے جہاں زاد عجب بات کہ جذبات کا حاتم بھی میں اور اشیا کا پرستار بھی میں اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں! تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے! عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟ اے جہاں زاد ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا اس کا نہیں کوئی جواب یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے! اے جہاں زاد مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں کے کنارے گونجی تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا صدیوں کا کنارا نکلا یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے یہ سمندر جو ہر اک فن کا ہر اک فن کے پرستار کا آئینہ ہے
@Diyalian
@Diyalian 3 года назад
Kmal
@heartisariver7589
@heartisariver7589 2 года назад
Aye hye😥😥😥
@tayyabwarraich4144
@tayyabwarraich4144 Год назад
La jawab
@Q8TGAMER
@Q8TGAMER 2 года назад
❤️❤️❤️❤️❤️
@lopezalehandro1666
@lopezalehandro1666 8 месяцев назад
Yeh music kyun add kiyaa? En Alfazoon ko saaz ki zaroorat nahi. Abhi aur kya? Jhankar beats? RDB remix? Dancing girls?
@ZaibiSF
@ZaibiSF 2 года назад
background music name plz bata Den
@110Turab
@110Turab 4 месяца назад
Great poetry... sound great even without this stupid background music.
@mdmobashshir8003
@mdmobashshir8003 2 месяца назад
I had to mentally remove that shitty thing. Focus only on Zia ji
@abhijeetsharma1477
@abhijeetsharma1477 Год назад
Hasan kuzagar ab khaan hai
@user-rn3xj8lv1m
@user-rn3xj8lv1m Год назад
Ya Puri nazma h kya?
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
Nahii , yh nzm 4 part pr mushtamil hai
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
(1) حسن کوزہ گر ن م راشد جہاں زاد نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں! تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف کی دکان پر میں نے دیکھا تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں جہاں زاد نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں! یہ وہ دور تھا جس میں میں نے کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے حسن کوزہ گر اب کہاں ہے؟ وہ ہم سے خود اپنے عمل سے خدا وند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں! جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے تغاروں میں مٹی کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں سنگ بستہ پڑی تھی صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں مری ہیچ مایہ معیشت کے اظہار فن کے سہارے شکستہ پڑے تھے میں خود میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برہنہ سر چاک ژولیدہ مو سر بہ زانو کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے گل و لا سے خوابوں کے سیال کوزے بناتا رہا تھا جہاں زاد نو سال پہلے تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی کہ میں نے حسن کوزہ گر نے تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں میں دیکھی ہے وہ تابناکی کہ جس سے مرے جسم و جاں ابر و مہتاب کا رہگزر بن گئے تھے جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات وہ رود دجلہ کا ساحل وہ کشتی وہ ملاح کی بند آنکھیں کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے ایک ہی رات وہ کہربا تھی کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود اس کی جاں اس کا پیکر مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے! جہاں زاد اس دور میں روز ہر روز وہ سوختہ بخت آ کر مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بہ زانو تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی (وہی چاک جو سال ہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!) وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی حسن کوزہ گر ہوش میں آ حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر یہ بچوں کے تنور کیونکر بھریں گے حسن اے محبت کے مارے محبت امیروں کی بازی حسن اپنے دیوار و در پر نظر کر مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے کسی ڈوبتے شخص کو زیر گرداب کوئی پکارے! وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان خرابوں کا مجذوب تھا جن میں کوئی صدا کوئی جنبش کسی مرغ پراں کا سایہ کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا! جہاں زاد میں آج تیری گلی میں یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں ترے در کے آگے کھڑا ہوں سر و مو پریشاں دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں مجھے آج پھر جھانکتی ہیں زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں میں انساں ہوں لیکن یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے! حسن کوزہ گر آج اک تودۂ خاک ہے جسم میں نم کا اثر تک نہیں ہے جہاں زاد بازار میں صبح عطار یوسف کی دکان پر تیری آنکھیں پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں ان آنکھوں کی تابندہ شوخی سے اٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے! تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر وہی کوزہ گر جس کے کوزے تھے ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب کہ میں اس گل و لا سے اس رنگ و روغن سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے دلوں کے خرابے ہوں روشن!
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
2)حسن کوزہ گر ن م راشد اے جہاں زاد، نشاط اس شب بے راہ روی کی میں کہاں تک بھولوں؟ زور مے تھا کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا تجھے حیرت نہ ہوئی! کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت تجھے حیرت نہ ہوئی! اے جہاں زاد، میں کوزوں کی طرف اپنے تغاروں کی طرف اب جو بغداد سے لوٹا ہوں تو میں سوچتا ہوں سوچتا ہوں تو مرے سامنے آئینہ رہی سر بازار دریچے میں سر بستر سنجاب کبھی تو مرے سامنے آئینہ رہی جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے اپنی ہی صورت کے سوا اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا! لکھ رہا ہوں تجھے خط اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں اب ایک ہی صورت کے سوا! لکھ رہا ہوں تجھے خط اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟ لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے خط کیوں نہ لکھوں؟ اے جہاں زاد، نشاط اس شب بے راہ روی کی مجھے پھر لائے گی؟ وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟ وقت اک ایسا پتنگا ہے جو دیواروں پہ آئینوں پہ پیمانوں پہ شیشوں پہ مرے جام و سبو میرے تغاروں پہ سدا رینگتا ہے رینگتے وقت کے مانند کبھی لوٹ کے آئے گا حسن کوزہ گر سوختہ جاں بھی شاید! اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد تو میں سوچتا ہوں! شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی جسے تنتی چلی جاتی ہے وہ جالا تو نہیں ہوں میں بھی؟ یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پڑا سوچتا ہوں میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی بس ایک نشانی ہے یہی ان کے فن ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت آ کے مجھے دیکھتی ہے دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں کھیل اک سادہ محبت کا شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی کھیلتے ہیں کبھی رو لیتے ہیں مل کر کبھی گا لیتے ہیں اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں حرف سرحد ہیں جہاں زاد معانی سرحد عشق سرحد ہے جوانی سرحد دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں درد محرومی کی تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟ میرے اس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں در و دیوار سے لپٹی ہوئی اس گرد کی خوشبو بھی ہے میرے افلاس کی تنہائی کی یادوں کی تمناؤں کی خوشبوئیں بھی پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے گندہ ہے پراگندہ ہے ہاں کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے کبھی انجیروں کے زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے تو میں جی اٹھتا ہوں تو میں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا! ورنہ اس گھر میں کوئی سیج نہیں عطر نہیں ہے کوئی پنکھا بھی نہیں، تجھے جس عشق کی خو ہے مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں! تو ہنسے گی اے جہاں زاد عجب بات کہ جذبات کا حاتم بھی میں اور اشیا کا پرستار بھی میں اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں! تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے! عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟ اے جہاں زاد ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا اس کا نہیں کوئی جواب یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے! اے جہاں زاد مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں کے کنارے گونجی تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا صدیوں کا کنارا نکلا یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے یہ سمندر جو ہر اک فن کا ہر اک فن کے پرستار کا آئینہ ہے
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
(3) حسن کوزہ گر ن م راشد جہاں زاد وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن تمام رات تیرتے رہے تھے ہم ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوال عمر کے خلاف تیرتے رہے تو کہہ اٹھی: 'حسن یہاں بھی کھینچ لائی جاں کی تشنگی تجھے!' (لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا میں کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں سے شاد کام ہوگیا!) مگر یہ وہم دل میں تیرنے لگا کہ ہو نہ ہو مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں کہ اب بھی ربط جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے یہی وہ اعتبار تھا کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا میں سب سے پہلے 'اپ 'ہوں اگر ہمیں ہوں تو ہو اور میں ہوں پھر بھی میں ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں! اگر میں زندہ ہوں تو کیسے آپ سے دغا کروں؟ کہ تیرے جیسی عورتیں، جہاں زاد، ایسی الجھنیں ہیں جن کو آج تک کوئی نہیں 'سلجھ' سکا جو میں کہوں کہ میں 'سلجھ' سکا تو سر بسر فریب اپنے آپ سے! کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر جواب جس کا ہم نہیں (لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر تیرے لب پہ تھا وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا لبوں کو نوچتا رہا جو میں کبھی نہ کر سکا نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاط ناب کا جو صد نوا و یک نوا خرام صبح کی طرح لبیب ہر نوائے ساز گار کی نفی سہی!) مگر ہمارا رابطہ وصال آب و گل نہیں، نہ تھا کبھی وجود آدمی سے آب و گل سدا بروں رہے نہ ہر وصال آب و گل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا جو ان کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے! جہاں زاد، ایک تو اور ایک وہ اور ایک میں یہ تین زاویے کسی مثلث قدیم کے ہمیشہ گھومتے رہے کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے مثلث قدیم کو میں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلث قدیم کا نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں گھومتے ہوئے سبو و جام پر ترا بدن ترا ہی رنگ تیری نازکی برس پڑی وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی میں سیل نور اندروں سے دھل گیا! مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی! تمام کوزے بنتے بنتے 'تو' ہی بن کے رہ گئے نشاط اس وصال رہ گزر کی نا گہاں مجھے نگل گئی یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ کہ جب خمیر آب و گل سے وہ جدا ہوئے تو ان کو سمت راہ نو کی کامرانیاں ملیں میں اک غریب کوزہ گر یہ انتہائے معرفت یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت مجھے ہو اس کی کیا خبر؟ جہاں زاد انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر جو نو برس کے دور نا سزا میں تھا؟ اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا نہ گمرہی کی رات کا شب گنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا وہ خود گناہ بن گئیں! حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا اک انتظار بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا! کبھی جو چند ثانیے زمان بے زماں میں آ کے رک گئے تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اتر گیا تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں کے سست قافلے مرے دروں میں جاگ اٹھے مرے دروں میں اک جہان باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اٹھی بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں! میں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہوا غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو مرے وجود سے بروں تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے میرے اپنے آپ سے فراق میں وہ پھر سے ایک کل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح) وہ پھر سے ایک رقص بے زماں بنے وہ رویت ازل بنے!
@hassanmujtaba593
@hassanmujtaba593 10 месяцев назад
(حسن کوزہ گر (4 ن م راشد جہاں زاد کیسے ہزاروں برس بعد اک شہر مدفون کی ہر گلی میں مرے جام و مینا و گل داں کے ریزے ملے ہیں کہ جیسے وہ اس شہر برباد کا حافظہ ہوں حسن نام کا اک جواں کوزہ گر اک نئے شہر میں اپنے کوزے بناتا ہوا عشق کرتا ہوا اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے ہمیں میں کہ جیسے ہمیں ہوں سمویا گیا ہے کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے ہزاروں برس رینگتی رات بھر اک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں بناتے رہے ہیں اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں جہاں زاد یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ کوزوں کی لاشوں میں اترا ہے دیکھو یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں کبھی جام و مینا کی لم تک نہ پہنچیں یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں کو پھر سے الٹنے پلٹنے لگے ہیں یہ ان کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے جو تاریخ کو کھا گئی تھیں وہ طوفان وہ آندھیاں پا سکیں گے جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں انہیں کیا خبر کس دھنک سے مرے رنگ آئے مرے اور اس نوجواں کوزہ گر کے انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے انہیں کیا خبر کون سے حسن سے کون سی ذات سے کس خد و خال سے میں نے کوزوں کے چہرے اتارے یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں زمانہ جہاں زاد افسوں زدہ برج ہے اور یہ لوگ اس کے اسیروں میں ہیں جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے! یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن ہیں جویا کسی عظمت نارسا کے انہیں کیا خبر کیسا آسیب مبرم مرے غار سینے پہ تھا جس نے مجھ سے اور اس کوزہ گر سے کہا اے حسن کوزہ گر جاگ درد رسالت کا روز بشارت ترے جام و مینا کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے یہی وہ ندا کے پیچھے حسن نام کا یہ جواں کوزہ گر بھی پیاپے رواں ہے زماں سے زماں تک خزاں سے خزاں تک جہاں زاد میں نے حسن کوزہ گر نے بیاباں بیاباں یہ درد رسالت سہا ہے ہزاروں برس بعد یہ لوگ ریزوں کو چنتے ہوئے جان سکتے ہیں کیسے کہ میرے گل و خاک کے رنگ و روغن ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر ابد کی صدا بن گئے تھے میں اپنے مساموں سے ہر پور سے تیری بانہوں کی پہنائیاں جذب کرتا رہا تھا کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں حسن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے یہ اس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک خزاں سے خزاں تک جو ہر نوجواں کوزہ گر کی نئی ذات میں اور بڑھتا چلا جا رہا ہے! وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت ہمہ عشق ہیں ہم ہمہ کوزہ گر ہم ہمہ تن خبر ہم خدا کی طرح اپنے فن کے خدا سر بسر ہم آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے جو دیکھے بھی نہ ہوں کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ ان کا کہاں سے پائے کس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی یہ کوزوں کے لاشے جو ان کے لیے ہیں کسی داستان فنا کے وغیرہ وغیرہ ہماری اذاں ہیں ہماری طلب کا نشاں ہیں یہ اپنے سکوت اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھلی ہیں تمہیں دیکھتی ہیں ہر اک درد کو بھانپتی ہیں ہر اک حسن کے راز کو جانتی ہیں کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اس رات کی آرزو ہیں جہاں ایک چہرہ درختوں کی شاخوں کے مانند اک اور چہرے پہ جھک کر ہر انسان کے سینے میں اک برگ گل رکھ گیا تھا اسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں
@FunkadelicFeed
@FunkadelicFeed 3 месяца назад
The background music is bloody irritating
@Q8TGAMER
@Q8TGAMER 2 года назад
❤️❤️❤️
Далее
Hassan Kozagar Experimental Short Film
10:04
Просмотров 45 тыс.
Noon Meem Rashid an Documentary
37:01
Просмотров 22 тыс.
Deewan e Ghalib | Voice by Zia Mohiuddin | Pure Urdu
12:48
A rare interview of Noon Meem Rashid
7:10
Просмотров 3,8 тыс.