Is par to ham (ahmadiya) bhi labbaik kehte hain hamare to salam darood muhammad rasoolallah sallallahu alayhi wasallam ke liye hi hai phir tum kis shak aur shbahat mai mubtila ho
فیضان ختم نبوت کیا آنحضورﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا؟ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی و معہود ؑ، بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبییّن نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت ،یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف بھی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختمِ نبوّت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں ، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوّت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرتِ تامّ سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوّت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اِس چشمہ سے سیراب ہوں۔ ‘‘ (ملفوظات۔ جلد اول ۔صفحہ ۳۴۲)
Ye Allah hum sab Musalman Jo ( KHTAM E NABUWAT ) per eman rakhne wale Musalmano kee or inke eman kee hefazat farmaa 😣😣 ahamdiya tw musrakeen se batar h 😣😣
اس بیش بہا قیمتی معلومات کے بدلے اللہ رب العزت تاجدار ختم نبوت حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و اٰلہِ وسلم کی ذات اقدس کے صدقے آپکو بمع اہل و عیال دونوں جہانوں کی سرخروئ نصیب فرماے. آمین
Ye bhee eak jahilon wali baat hai 12 rabiauwal hai to kya huwa usee din wafat bhee to hai eshe kyon bhul rahe ho aur suno zayada kamzor hadees par chalo to fir Allah aur us k rasul (saw) k concept me hi gadbad kar baitho gey esleye sahi hadees ko her mamle me follow Keya jana chaheye
جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ ’’ایک شخص عبد الحق نام جو اپنے آپ کو صوفی ابوالخیر صاحب کے مرید بتلاتے تھے، چند طالب علموں کے ساتھ آئے۔ اَور بھی دہلی والے آموجود ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ کیا تم سب دہلی کے ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہاں۔ پھر میاں عبد الحق صاحب نے سوال کیا کہ مَیں تشفّی کے واسطے ایک بات پوچھتا ہوں۔ حضرت نے اجازت دی۔ عبد الحق: کیا آپ اُس مسیح اور مہدی کو یا ددلانے والے ہیں جو کہ آنے والا ہے یا کہ آپ خود مسیح اور مہدی ہیں؟ حضرت اقدس: مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت کی گواہی دی۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے۔ شبِ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گزشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا۔ ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی۔ جو طالبِ حق ہو اور خوف خدا رکھتا ہو اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہو گیا ہے۔ ایک شخص پہلی پیشگوئی کے مطابق، قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق عین ضرورت کے وقت دعویٰ کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے کہ عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے جو بات پیش کی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اَور بات نہیں ہو سکتی۔ انیس سو سال سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور معبود ہے اور چالیس کروڑ عیسائی اس وقت موجود ہے۔ اس پر پھر مسلمانوں کی طرف سے اُن کی تائید کی جاتی ہے کہ بیشک عیسیٰ اب تک زندہ ہے، نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج ۔ سب نبی مر گئے پر وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ اس سے عیسائیوں پر کیا اثر ہوگا۔ عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح ہتھیار عبد الحق: عیسائیوں پر تو کوئی اثر ہو نہیں سکتا جب تک کہ شمشیر نہ ہو۔ حضرت اقدس: یہ بات غلط ہے۔ تلوار کی اب ضرورت نہیں ہے اور نہ تلوار کا اب زمانہ ہے۔ابتدا میں بھی تلوار ظالموں کے حملہ کے روکنے کے واسطے اٹھائی گئی تھی ورنہ اسلام کے مذہب میں جبر نہیں۔ تلوار کا زخم تو مل جاتا ہے پر حجت کا زخم نہیں ملتا۔ دلائل اور براہین کے ساتھ اس وقت مخالفین کو قائل کرنا چاہیے۔ مَیں آپ لوگوں کی خیر خواہی کی ایک بات کہتا ہوں۔ ذرا غور سے سنو۔ ہر دو پہلوئوں پر توجہ کرو۔ اگر عیسائیوں کے سامنے اقرار کیا جائے کہ وہ شخص جس کو تم خدا اور معبود مانتے ہو بیشک وہ اب تک آسمان پر موجود ہے۔ ہمارے نبی تو فوت ہو گئے پر وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج۔ اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر ہم عیسائیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود اور خدا مانتے ہو وہ مر گیا۔ مثل دوسرے انبیاء کے فوت ہو کر زمین میں دفن ہے اور اس کی قبر موجود ہے، اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ بحثوں کو جانے دو اورمیری مخالفت کے خیال کو چھوڑو۔ میں پروا نہیں کرتا کہ مجھے کوئی کافر کہے، دجّال کہے یا کچھ اور کہے۔ تم یہ کہو کہ ان ہر دو باتوں میں سے کونسی بات ہے جس سے عیسائی مذہب بیخ و بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے۔ اس تقریر کا میاں عبد الحق صاحب پر بہت اثر ہوا؛ چنانچہ فوراً کھڑا ہو کر حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ چومے اور کہا: میں سمجھ گیا۔ آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے۔ انشاء اللہ ضرور آپ کی ترقی ہو گی۔ یہ بات صحیح ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 492-494۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام حضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی اور اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اسلام اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم کی طرف بلایا جائے ۔چنانچہ آپ بڑے جلال کے ساتھ اور پرحکمت انداز میں کل عالم کو دین محمدی ﷺ کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ اور اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نیا دور شروع فرمایا ۔ آپ کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔ دارالنجات کا دروازہ یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے تاکہ یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچادے کہ دنیا کے مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔ (حجۃالاسلام صفحہ 12) سچا مذہب اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچاخدا بھی وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے ۔ (تریاق القلوب ، صفحہ 13) قرآن کی خوبیاں مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودہویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطاکئے گئے ہیں۔ (برکات الدعا ، صفحہ 34) غلبہ دین اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کرکے دکھاؤں ، اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ۔ (ملفوظات جلد اول ، صفحہ 432) تعلیمات حقہ کی اشاعت خداتعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد ہا دلائل عقلیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے ۔ (براہین احمدیہ، صفحہ 596) خوشخبری زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ملے ۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کرسکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلاواسطہ ملہم کودیکھ سکیں ۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے ۔ (مجموعہ اشتہارات ، جلد 2 صفحہ 311) موسیٰ کا طور میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں ۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ۔ ہرگز ممکن نہیں ۔اے نادانو تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزا ہے ۔ اور مردار کھانے میں کیا لذت ۔ آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے ۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے ۔ (ضمیمہ انجام آتھم ، صفحہ 61) نور کے چشمے میں صرف اسلام کو سچامذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا ۔۔۔اور مجھے دکھلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تجھ کو ملا ہے ۔ (آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ 275) صراط مستقیم صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں ۔جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں ۔ اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایا ں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے ۔ (براہین احمدیہ جلد 4صفحہ557) دین محمد ﷺ ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ ثمر باغ محمدﷺ سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کرے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے (آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ 224) پیغام کا خلاصہ ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا للہ محمدرسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمدمصطفی ﷺ خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا۔۔۔۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے ۔ (ازالہ و اوہام صفحہ 69) ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور مذہب نہیں ۔ اسلام ہی کے غلبہ کی خاطر شروع کی جانے والی تحریک ہے جو پیشگوئیوں کے مطابق جاری کی گئی ہے اور اب تک یہ اسلام کی عظیم الشان خدمات سرانجام دے چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب نہیں آجاتا
لبیک یا رسول اللہ ۔ لبیک یا تاجدار حرم ۔ لبیک صحابہ کرام رضوان اللہ ۔۔ جن سے اللہ راضی جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، راضی و خوش ۔ ان پر میرا ایمان ۔۔ اسلام زندہ باد ۔
لا نبی بعدی ۔ عقیدہ ختم نبوت زندہ باد ۔جناب سیدنا عیسی علیہ السلام قبل از قیامت اپنی نبوت لے کے نہیں بلکہ رسالت محمدیہ پہ سیدنا امام مہدی کا جنازہ پڑھاٸیں گے ۔اور اس وقت دو نبی موجود ہیں جناب حضرت الیاس علیہ السلام اور جناب ابوالعباس حضرت بلیإ بن ملکان المعروف خضر علیہ السلام تو کیا اس وقت ان کی شریعت چل رہی ہے ؟
Agr Mere baad koi Nabi hota to wo umar hota... Sunnio ka khatm e naboowat pr hamla.... Kiya Shan h mere 12way imam ki K unka janaza ek Nabi pharaye ga... Pehle imam ne Nabi ka janaza pharaya or 12 imam ka ek Nabi janaza pharaye ga ab b log 12 imamo ko inkar krenge....
@@najafali1113 abay khtml ke bachy hum suni huzoor e akram s.a.w ko akhri nabi mantay Alhamdulillah.. tum shia hazrat Ali ko naouzubillah ALLAH pak se bhi umer manty ho
@@najafali1113 بد بخت ہیں وہ لوگ وہ کنبہ وہ قبیلہ وہ نسل وہ قوم جو معصومین امامین کی شان اقدس میں لمحہ بھر بھی کوتاہی برتے ۔ یقینا اہل بہت اطہار اصحاب رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم امامین تابعین اولیاء عظام کی شان اقدس میں کوتاہی کرنے والا بر کردار اور بد نسلا ہے ۔ جناب حضرت ابو بکر نے کتنی بار فرمایا اے مولا علی اگر تو نہ ہوتا تو ابو بکر ہلاک ہو جاتا ۔ اسی طرح جناب حضرت عمر فاروق نے بھی کتنی ہی بار ارشاد فرمایا اے علی اگر آپ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا ۔
@@najafali1113 Nabi hota aur hone me fark hota hai. Akhir uz Zaman sirf Ahl e tashaiyyon ke liye nahi hai. Wo Imam hai poori Ummat ke liye. Isme apni zaati ranjish mat daalo.
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام حضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی اور اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اسلام اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم کی طرف بلایا جائے ۔چنانچہ آپ بڑے جلال کے ساتھ اور پرحکمت انداز میں کل عالم کو دین محمدی ﷺ کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ اور اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نیا دور شروع فرمایا ۔ آپ کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔ دارالنجات کا دروازہ یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے تاکہ یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچادے کہ دنیا کے مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔ (حجۃالاسلام صفحہ 12) سچا مذہب اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچاخدا بھی وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے ۔ (تریاق القلوب ، صفحہ 13) قرآن کی خوبیاں مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودہویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطاکئے گئے ہیں۔ (برکات الدعا ، صفحہ 34) غلبہ دین اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کرکے دکھاؤں ، اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ۔ (ملفوظات جلد اول ، صفحہ 432) تعلیمات حقہ کی اشاعت خداتعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد ہا دلائل عقلیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے ۔ (براہین احمدیہ، صفحہ 596) خوشخبری زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ملے ۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کرسکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلاواسطہ ملہم کودیکھ سکیں ۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے ۔ (مجموعہ اشتہارات ، جلد 2 صفحہ 311) موسیٰ کا طور میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں ۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ۔ ہرگز ممکن نہیں ۔اے نادانو تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزا ہے ۔ اور مردار کھانے میں کیا لذت ۔ آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے ۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے ۔ (ضمیمہ انجام آتھم ، صفحہ 61) نور کے چشمے میں صرف اسلام کو سچامذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا ۔۔۔اور مجھے دکھلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تجھ کو ملا ہے ۔ (آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ 275) صراط مستقیم صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں ۔جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں ۔ اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایا ں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے ۔ (براہین احمدیہ جلد 4صفحہ557) دین محمد ﷺ ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ ثمر باغ محمدﷺ سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کرے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے (آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ 224) پیغام کا خلاصہ ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا للہ محمدرسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمدمصطفی ﷺ خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا۔۔۔۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے ۔ (ازالہ و اوہام صفحہ 69) ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور مذہب نہیں ۔ اسلام ہی کے غلبہ کی خاطر شروع کی جانے والی تحریک ہے جو پیشگوئیوں کے مطابق جاری کی گئی ہے اور اب تک یہ اسلام کی عظیم الشان خدمات سرانجام دے چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب نہیں آجاتا
@@BaseerAhmadRaja to aap ye kaysay maantay hay. K mirza nabi hay. Ya majdi hay . Mahrobani karay khod to zara inkay kototb paray kiya nabi ki correcter aysa hota hay . Ghoor karo plz
اللہ اکبر ۔۔ اللہ ان جہنمی لوگوں کو نیک ہدایت فرمائے ۔۔ ایک اللہ ۔ایک قرآن ۔ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایک کعبہ شریف ۔ ایک شہر امن مدینہ منورہ ۔۔ بس رھے نام اللہ کا ۔ اسلام زندہ باد ۔
کیا حضرت عیسیٰ ؑ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّتی ہوسکتے ہیں؟ غیر احمدی علماءکی طرف سے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ ایک نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور دینِ اسلام کے مطابق خود بھی عمل کریں گے اور دوسروں سے بھی اسی شریعت پر عمل کروائیں گے۔ اس بارے میں قرآنِ کریم کی آیات اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہماری رہنمائی کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی کا امّتی تو بن سکتا ہے لیکن اپنے سے بعد میں آنے والے نبی کا امّتی نہیں بن سکتا، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ سے ظاہر ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ۔۔ یہودی یا عیسائی؟ اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل نہیں اتاری گئیں مگر اس کے بعد۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟ (آل عمران3:66) اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو توجہ دلاتے ہوئے ایک اصول بیان فرماتا ہے کہ امّتیں کتاب کے نزول کے بعد قائم ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہودی اور عیسائی امّتیں تورات اور انجیل کے نازل ہونے کے بعد وجود میں آئیں۔ جبکہ حضرت ابراہیم ؑ اُن دونوں کتابوں کے نزول یا بالفاظِ دیگر یہودی و عیسائی امّتوں کے قائم ہونے سے پہلے آچکے تھے۔ لہٰذا وہ ان دونوں امّتوں میں سے کسی ایک کے فرد بھی قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ کے امّتی اور یقینًا اسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا(الصّٰفٰت37:84) چونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام حضرت ابراہیم ؑکے بعد آئے تھے لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ ان کی امتوں کے فرد نہیں بن سکتے لیکن مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ حضرت نوح ؑ کے گروہ میں شامل قرار دئیے گئے ہیں کیونکہ حضرت نوح ؑ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے تھے۔ حضرت موسیٰؑ کی خواہش مندرجہ ذیل حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کی امّتِ محمدیہ میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسی بنیاد پر رد فرمادیا کہ وہ پہلے ہوچکے ہیں اور امّت محمدیہ حضرت موسیٰ ؑ کے تقریبًا دو ہزار سال بعد قرآن کے نزول کے ذریعے قائم ہونے والی تھی۔ غور کرنا چاہئے کہ یہی روک جو حضرت موسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے، وہی روک حضرت عیسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے۔ ابونعیم نے ”حلیہ“ میں حضرت انسؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجتبیٰ کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کرونگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے رب! احمد کون ہیں؟ فرمایا:۔ ”میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا۔ اور میں نے ان کا نام تخلیق زمین و آسمان سے پہلے عرش پر لکھا۔ بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ ان کی امت میں داخل نہ ہو۔“ …موسیٰ ؑنے عرض کیا اس امت کا نبی مجھے بنادے! فرمایا اس امت کا نبی انہیں میں سے ہوگا۔ عرض کیا مجھے اس امت میں سے بنادے! فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں، لیکن بہت جلد میں تم کو اور ان کو دارالجلال میں جمع کردونگا۔“ (علامہ جلال الدین سیوطیؒ الخصائص الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۱۲، اشرف علی تھانوی النشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب
اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ ’’اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے؛ ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ وفاتِ مسیح کا معاملہ تو جملہ معترضہ کی مانند درمیان آگیا ہے۔ مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اَڑالی ۔ان لوگوں کو مناسب نہ تھاکہ اس معاملہ میں دلیری کرتے۔ قولِ خدا ،رؤیت نبی اور اجماعِ صحابہؓ،یہ تین باتیں اس کے واسطے کافی تھیں۔ ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا اصلی امر ابھی دیگر ہے۔ یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اُٹھایا گیا ہے۔ سو چو کہ جو شخص دنیاداری میں غرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اُس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد ان کی دنیاداری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ایسےشخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ توکل بھی گیا اور آج بھی گیا۔ یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتاہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔انسان کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلاء دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گزرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہو جائے ۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے، مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبرکرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے لیکن ؎ عشق اوّل سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنّت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیبّہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصّہ مجھے بھی ملے۔ جبتک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کردے اور محسوس نہ کرلے کہ نفسِ اَمّارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔ اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے۔لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْا َسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِیْرًا (النسآء:146) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے ،اُس کو اُٹھایا جائے گا۔مگرمومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے،اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں‘‘۔
وفات مسیح ۔ احادیث اور اقوالِ صحابہ کی روشنی میں حضرت مسیح علیہ السلام کو قرآن کریم نے متعدد آیات میں وفات یافتہ قرار دیا ہے ۔ اور آنحضرت ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہؓ کا یہی عقیدہ تھا ۔ آئےے پہلے چند احادیث اور پھر صحابہؓ کے اقوال ملاحظہ ہوں ۔ مسیح کی عمر حضرت عیسیٰ بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے ۔ (کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ از علاؤالدین علی المتقی ۔ دائرہ المعارف النظامیہ ۔ حیدرآباد ۱۳۱۲ھ) مسیح فوت ہوگئے اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ) ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ) آنحضرت ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر) فلسطین سے ہجرت حضور ﷺ نے فرمایا ۔ ’اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف وحی کی کہ اے عیسیٰ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نقل مکانی کرتا رہ تاکہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے ‘۔ (کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۳۴) ’حضرت عیسیٰ ؑ ہمیشہ سیروسیاحت کیا کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی جنگل کی سبزیاں کھاتے اور خالص پانی پیتے تھے‘ ۔ (کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۷۱) امت محمدیہ میں سے امام آنحضرت ﷺ نے جہاں امت محمدیہ میں مسیح موعود کی خبر دی ہے وہاں ساتھ ہی فرمایا ۔ امامکم منکم تم میں سے تمہارا امام ہوگا ۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ) صحیح مسلم کی روایت اس کی مزید وضاحت کرتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ امکم منکم ۔تمہاری امامت کرے گا اور تم میں سے ہوگا (مسلم کتاب الایمان باب بیان نزول عیسیٰ ) حضور ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو امت محمدیہ کا نبی بنادے ۔ ارشاد ہوا اس امت کا نبی اسی میں سے ہوگا ۔ عرض کیا تو مجھ کو محمدکی امت میں سے بنادیجئے ۔ ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہوگئے وہ پیچھے ہونگے البتہ تم کو اور ان کو دارالجلال یعنی جنت میں جمع کردونگا ۔ (نشر الطیب از اشرف علی تھانوی ۱۳۹۷ھ ادب منزل پاکستان چوک ، کراچی) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ مجھے امت محمدیہ کا امام مہدی بنادے۔ تو اللہ نے فرمایا ۔ اس کا وجود احمد ﷺکے ذریعہ (یعنی اس کی امت میں سے) ہوگا ۔ (کتاب المہدی صفحہ ۱۱۲ از صدرالدین صدر، مطبوعہ تہران ۱۹۶۶ء) الگ الگ حلیے حضور ﷺ نے مسیح ناصری اور مسیح موعود کے الگ الگ حلیے بھی بیان فرمائے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ سرخ رنگ کے اور گھنگھریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے ۔ آنے والا مسیح موعود گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب و اذکرنی الکتاب مریم) آخری خطاب حضور ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں صحابہ رضوان اللہ علیھم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔ ’اے لوگو ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے خوفزدہ ہو ۔ کیا مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والا کوئی نبی بھی ایسا گزرا ہے جو غیر طبعی عمر پاکر ہمیشہ زندہ رہا ہو کہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکوں گا ۔ یاد رکھو کہ میں اپنے رب سے ملنے والا ہوں ۔‘ (المواہب الدنیہ جلد ۲ صفحہ ۳۶۸ از احمد بن ابی بکر خطیب قسطلانی شرفیہ ۱۹۰۸ء) صحابہ کا پہلا اجماع یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر ہوا ۔ کئی صحابہ نے شدت محبت اور غم کی وجہ سے حضور ﷺ کو وفات یافتہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ تب حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۵ تلاوت فرمائی ۔ ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل یعنی محمد ؐ صرف ایک رسول ہیں۔ اور ان سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں ۔ یہ آیت سن کر صحابہ نے حضور ﷺ کو فوت شدہ مان لیا ۔ اگر کوئی ایک صحابی بھی حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ سمجھتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ اگر حضرت عیسیٰ رسول ہو کر اب تک زندہ ہیں تو آنحضرت ﷺ کیونکر فوت ہوسکتے ہیں ۔ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ) اجماع صحابہ کی جھلک بحرین میں فرقہ اہلحدیث کے بانی محمد بن عبدالوہاب تحریر فرماتے ہیں ۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد بحرین کے کئی لوگ اس بات سے مرتد ہوگئے کہ اگر حضور ﷺ رسول ہوتے تو ہرگز فوت نہ ہوتے ۔ تب صحابی رسول حضرت جارود بن معلی رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کیا اور فرمایا آنحضرت ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ آپ ویسے ہی زندہ رہے جیسے حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ رہے اور اسی طرح انتقال کرگئے جیسے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے وفات پائی ۔ یہ سن کر سب لوگ اسلام میں واپس آگئے ۔ ( مختصر سیرۃ الرسول ؐ صفحہ ۱۸۷ از محمدبن عبدالوہاب دارلعربیہ بیروت لبنان) اجماع صحابہ کی جھلک کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’حضرت علی رضی اللہ عنہ اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح اٹھائی گئی تھی ۔ یعنی ۲۷ رمضان کی رات ۔ (طبقات ابن سعد ، جلد ۳ صفحہ ۳۹ دارالبیروت للطباعہ والنشر) حضرت ابن عباس کا عقیدہ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ آیت انی متوفیک ۔۔ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ممیتک ۔یعنی میں تجھے موت دینے والا ہوں ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدہ باب ماجعل اللہ من بحیرۃ۔۔۔)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام دیگر انبیاء کے ساتھ عَن مَالِکِ بنِ صَعْصَعَةَؓ اَنٖ نَبِیٖ اللّٰہِ ﷺ حَدٖثَھُم عَنْ لَیْلَةٍ اُسْرِیٰ بِہ قَالَ بَینَمَا اَنَا فِی الحَطِیمِ وَ رُبَمَا قَالَ فِی الحِجْرِ مُضْطَجِعًا۔۔۔ ۔۔۔قَالَ فَانْطَلَقَ بِی جبِرْیِلُ حَتّٰی اَتَی السٖمَائَ الدُنیَا۔۔۔۔۔۔۔ فَاِذَا فِیْھَا آدمُ فقالَ ھذا اَبُوکَ آدمُ فسَلّم عَلَیہ فَسلٖمتُ علیہ فرَدَٖ السٖلامَ ثُمٖ قالَ مَرحبًا بِالاِبنِ الصٖالِح والنٖبِیّ الصٖالِحِ ثُم صَعِدَ حَتّٰی اَتَی السٖماء الثٖانیةَ ۔۔۔ اِذَا یَحیٰ وَ عیسٰی وھُما ابنا الخَالةِ قالَ ھذا یَحیٰ و عیسٰی فَسَلّم عَلَیھمَا فَسَلٖمتُ فَرَدٖ ا ثُمٖ قَالا مَرحبَا بالاَخِ والنٖبیّ الصٖالِح۔۔۔ الخ (بخاری بنیان الکعبة باب المعراج) ترجمہ: حضرت مالکؓ بن صعصعہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اسراء کی رات کے بارہ میں بتایاکہ میں خانہ کعبہ کے کسی حصہ حطیم یا حجرمیں لیٹاہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے جبریل علیہ السلام لے کر چلے یہاں تک کہ پہلے آسمان پر آئے۔۔۔۔۔۔ وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا ۔جبریل ؑ نے کہا یہ آپ کے باپ آدم ہیں انہیں سلام کہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا ۔انہوں نے سلام کاجواب دیا اور کہا نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید۔ پھر ہم اور بلند ہوئے اور دوسرے آسمان پر پہنچے۔۔۔۔۔۔ تو کیا دیکھتاہوں کہ یحی اور عیسی علیہم السلام دونوں خالہ زاد بھائی ( موجود) ہیں۔جبریل نے کہا یہ یحیٰ اور عیسیٰ ہیں ان کو سلام کہیں ۔ میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہانیک بھائی اور صالح نبی خوش آمدید۔ (اس کے بعد اگلے آسمانوں کی سیر روحانی کا ذکر ہے) ۔ تشریح: بخاری اور مسلم نے اس حدیث کی صحت پراتفاق کرتے ہوئے اسے صحیحین میں درج کیاہے۔ نسائی میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کارفع بھی دیگر انبیاء کی طرح ہوا ۔ وہ خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گئے اور دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ ہیں ۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کے لئے الگ مقام مقرر ہوتاکیونکہ زندہ اور فوت شدہ الگ الگ مقام پر رہتے ہیں۔ لیکن واقعہ اسراء میں نبی کریم ﷺ کا ان کو دیگر وفات یافتہ انبیاء کی روحوں کے ساتھ دیکھنا بتاتاہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی دیگر انبیاء کی طرح فوت ہوچکے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح آسمانوں پر اٹھائی گئی یعنی ۲۷؍رمضان کی رات۔ (الطبقات الکبریٰ از علامہ ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۳۹ مطبوعہ دار صادر بیروت) حضرت علامہ ابن قیّمؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی روح کے ساتھ خارق عادت طور پر معراج کا واقعہ پیش آیا۔ جب کہ دیگر انبیاء کی ارواح وفات کے بعد جسم سے جدا ہو کر آسمان کی طرف بلند ہوئیں اور اپنے مقام پر جا ٹھہریں۔ زادالمعاد فی ھدی خیر العباد از علامہ ابن قیم جلد اول صفحہ ۲۰۳ مطبع نظام کانپور) حضرت داتا گنج بخش ہجویر ی ؒ فرماتے ہیں کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات آدم صفی اللہ اوریوسف صدیق اور موسی کلیم اللہ اورہارو ن حلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ صلوات اللہ علیھم اجمعین کو آسمانوں میں دیکھا تو ضرور بالضرور ان کی روحیں ہی تھیں۔ ( کشف المحجوب صفحہ ۳۱۷ مطبوعہ کشمیری بازارلاہور) پس حدیث معراج سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح طبعی موت کے بعد روحانی رفع ہوا ہے ۔ اوروہ خدا تعالیٰ کی ابدی جنت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے اورجہا ں سے کبھی کو ئی واپس آیا، نہ آئے گا۔
بات سیدھی سی ہے اگر کوئی عسیائی مسلمان ہو جائے وہ عسیائی نہیں رہتا وہ مسلمان ہو جاتا کیونکہ اس نے رسولﷺ کا کلمہ پڑھ لیا ہے اسی کوئی مسلمان قادیانی ہو جاتا تو وہ پھر مسلمان نہیں رہتا وہ وہ قادیانی ہو جاتا غیر مسلم کیونکہ رسولﷺ آخری نبی ہیں جو نہیں مانتا وہ کافر ہے
کیا حضرت عیسیٰ ؑ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّتی ہوسکتے ہیں؟ غیر احمدی علماءکی طرف سے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ ایک نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور دینِ اسلام کے مطابق خود بھی عمل کریں گے اور دوسروں سے بھی اسی شریعت پر عمل کروائیں گے۔ اس بارے میں قرآنِ کریم کی آیات اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہماری رہنمائی کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی کا امّتی تو بن سکتا ہے لیکن اپنے سے بعد میں آنے والے نبی کا امّتی نہیں بن سکتا، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ سے ظاہر ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ۔۔ یہودی یا عیسائی؟ اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل نہیں اتاری گئیں مگر اس کے بعد۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟ (آل عمران3:66) اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو توجہ دلاتے ہوئے ایک اصول بیان فرماتا ہے کہ امّتیں کتاب کے نزول کے بعد قائم ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہودی اور عیسائی امّتیں تورات اور انجیل کے نازل ہونے کے بعد وجود میں آئیں۔ جبکہ حضرت ابراہیم ؑ اُن دونوں کتابوں کے نزول یا بالفاظِ دیگر یہودی و عیسائی امّتوں کے قائم ہونے سے پہلے آچکے تھے۔ لہٰذا وہ ان دونوں امّتوں میں سے کسی ایک کے فرد بھی قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ کے امّتی اور یقینًا اسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا(الصّٰفٰت37:84) چونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام حضرت ابراہیم ؑکے بعد آئے تھے لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ ان کی امتوں کے فرد نہیں بن سکتے لیکن مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ حضرت نوح ؑ کے گروہ میں شامل قرار دئیے گئے ہیں کیونکہ حضرت نوح ؑ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے تھے۔ حضرت موسیٰؑ کی خواہش مندرجہ ذیل حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کی امّتِ محمدیہ میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسی بنیاد پر رد فرمادیا کہ وہ پہلے ہوچکے ہیں اور امّت محمدیہ حضرت موسیٰ ؑ کے تقریبًا دو ہزار سال بعد قرآن کے نزول کے ذریعے قائم ہونے والی تھی۔ غور کرنا چاہئے کہ یہی روک جو حضرت موسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے، وہی روک حضرت عیسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے۔ ابونعیم نے ”حلیہ“ میں حضرت انسؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجتبیٰ کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کرونگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے رب! احمد کون ہیں؟ فرمایا:۔ ”میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا۔ اور میں نے ان کا نام تخلیق زمین و آسمان سے پہلے عرش پر لکھا۔ بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ ان کی امت میں داخل نہ ہو۔“ …موسیٰ ؑنے عرض کیا اس امت کا نبی مجھے بنادے! فرمایا اس امت کا نبی انہیں میں سے ہوگا۔ عرض کیا مجھے اس امت میں سے بنادے! فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں، لیکن بہت جلد میں تم کو اور ان کو دارالجلال میں جمع کردونگا۔“ (علامہ جلال الدین سیوطیؒ الخصائص الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۱۲، اشرف علی تھانوی النشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب
اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ ’’اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے؛ ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ وفاتِ مسیح کا معاملہ تو جملہ معترضہ کی مانند درمیان آگیا ہے۔ مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اَڑالی ۔ان لوگوں کو مناسب نہ تھاکہ اس معاملہ میں دلیری کرتے۔ قولِ خدا ،رؤیت نبی اور اجماعِ صحابہؓ،یہ تین باتیں اس کے واسطے کافی تھیں۔ ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا اصلی امر ابھی دیگر ہے۔ یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اُٹھایا گیا ہے۔ سو چو کہ جو شخص دنیاداری میں غرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اُس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد ان کی دنیاداری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ایسےشخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ توکل بھی گیا اور آج بھی گیا۔ یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتاہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔انسان کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلاء دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گزرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہو جائے ۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے، مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبرکرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے لیکن ؎ عشق اوّل سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنّت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیبّہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصّہ مجھے بھی ملے۔ جبتک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کردے اور محسوس نہ کرلے کہ نفسِ اَمّارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔ اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے۔لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْا َسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِیْرًا (النسآء:146) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے ،اُس کو اُٹھایا جائے گا۔مگرمومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے،اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں‘‘۔
Surat No 33 : سورة الأحزاب - Ayat No 40 مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۴۰﴾٪ ۔ ( مسلمانو ! ) محمد ( صلی۔اللہ۔علیہ۔وآلہ۔وسلم ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ۔ ( ٣٥ ) اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے ۔
وعلیکم السلام ۔۔ جناب محترم عزیز ۔۔ اللہ آپ کا وقار بلند فرمائے ۔۔ قوم و ملت صحیح اصلاح کرنا اور مسلمانوں کو سچائی سے آگاہ کرنا بھی ثواب و صدقہ جاریہ ھے ۔۔ راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو اللہ رب العالمین ہدایت فرمائے ۔امین ثمہ امین ۔
La Eillaha Eilallahu Mohammadur Rasolullulahi Sallallahu Alaihi wa Alahi wa SALAM Mohammad Salallahu Aleihi wa Sallam Tasleema Kataman Nabiyeen MashaAllah,
Allah pak hummare emman ke hifazat fermayen or or hummen hummare eman per habit qadam rekhen ❤❤❤ ameeen Muhammad SAW hummare akhriii nabbi haiii or inke baad koi nabbi nahi aye gaa
plz recite at least 5 times...اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید... jazak Allah
فیضان ختم نبوت کیا آنحضورﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا؟ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی و معہود ؑ، بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبییّن نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت ،یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف بھی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختمِ نبوّت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں ، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوّت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرتِ تامّ سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوّت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اِس چشمہ سے سیراب ہوں۔ ‘‘ (ملفوظات۔ جلد اول ۔صفحہ ۳۴۲)
تاجدار ختم نبوت ۔زندہ باد ۔۔ ہم ایک اسلام کے ماننے والے ۔۔ اللہ کے حکام و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروی کرنے والے ہیں ۔ اللہ منافقوں ۔ مشرکوں، مجوسی، کذابی، خارجی ۔ مرجائی ۔ ملحدوں ۔ مکاروں ۔کفاروں ۔ امت کے غداروں کو اللہ ہدایت فرمائے ۔۔ ایک سچا دین اسلام زندہ باد ۔۔
Aap masha Allah bahut achha kaam kar rahe hain, aap har video ek naye topic par banate ho, jo aksar log nahin sochte, aur aap ke video me sari baaten topic se related hi hoti hain, aur sari jankari mustanad milti hain, Allah aap ko apni amaan me rakhe...
Ahmadi muslim is United under 1 tawheed (la ilaha illalahu muhammadur rasulallah)1true khilafat. A brotherhood built for the sake of uniting the Muslim ummah under 1khilafat ahmadis in this world & jannatis in the here after☝️ worshipping none but allah☝️& muhammad SAW is our prophet and mirza ghulam Ahmad qadiayni is the massiah and mehdi of allah spreading the true teachings of islam
Aik Behtareen or nayab video.In naye firqon k naam ka naam tk ni suna tha or Ho skta hai apki is video k zariye bht se logon ka Eman bach jaye. Best Info 👌🏻
Hakeem nooruddin pr video bnae isi ne qadiani ko pase pardah trainned kiya thha ye bhoot qabil or shobdebaaz thha Plzzzz hakim nooruddin pr video bnaiye
@@fatimasaddique5639 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام دیگر انبیاء کے ساتھ عَن مَالِکِ بنِ صَعْصَعَةَؓ اَنٖ نَبِیٖ اللّٰہِ ﷺ حَدٖثَھُم عَنْ لَیْلَةٍ اُسْرِیٰ بِہ قَالَ بَینَمَا اَنَا فِی الحَطِیمِ وَ رُبَمَا قَالَ فِی الحِجْرِ مُضْطَجِعًا۔۔۔ ۔۔۔قَالَ فَانْطَلَقَ بِی جبِرْیِلُ حَتّٰی اَتَی السٖمَائَ الدُنیَا۔۔۔۔۔۔۔ فَاِذَا فِیْھَا آدمُ فقالَ ھذا اَبُوکَ آدمُ فسَلّم عَلَیہ فَسلٖمتُ علیہ فرَدَٖ السٖلامَ ثُمٖ قالَ مَرحبًا بِالاِبنِ الصٖالِح والنٖبِیّ الصٖالِحِ ثُم صَعِدَ حَتّٰی اَتَی السٖماء الثٖانیةَ ۔۔۔ اِذَا یَحیٰ وَ عیسٰی وھُما ابنا الخَالةِ قالَ ھذا یَحیٰ و عیسٰی فَسَلّم عَلَیھمَا فَسَلٖمتُ فَرَدٖ ا ثُمٖ قَالا مَرحبَا بالاَخِ والنٖبیّ الصٖالِح۔۔۔ الخ (بخاری بنیان الکعبة باب المعراج) ترجمہ: حضرت مالکؓ بن صعصعہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اسراء کی رات کے بارہ میں بتایاکہ میں خانہ کعبہ کے کسی حصہ حطیم یا حجرمیں لیٹاہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے جبریل علیہ السلام لے کر چلے یہاں تک کہ پہلے آسمان پر آئے۔۔۔۔۔۔ وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا ۔جبریل ؑ نے کہا یہ آپ کے باپ آدم ہیں انہیں سلام کہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا ۔انہوں نے سلام کاجواب دیا اور کہا نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید۔ پھر ہم اور بلند ہوئے اور دوسرے آسمان پر پہنچے۔۔۔۔۔۔ تو کیا دیکھتاہوں کہ یحی اور عیسی علیہم السلام دونوں خالہ زاد بھائی ( موجود) ہیں۔جبریل نے کہا یہ یحیٰ اور عیسیٰ ہیں ان کو سلام کہیں ۔ میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہانیک بھائی اور صالح نبی خوش آمدید۔ (اس کے بعد اگلے آسمانوں کی سیر روحانی کا ذکر ہے) ۔ تشریح: بخاری اور مسلم نے اس حدیث کی صحت پراتفاق کرتے ہوئے اسے صحیحین میں درج کیاہے۔ نسائی میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کارفع بھی دیگر انبیاء کی طرح ہوا ۔ وہ خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گئے اور دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ ہیں ۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کے لئے الگ مقام مقرر ہوتاکیونکہ زندہ اور فوت شدہ الگ الگ مقام پر رہتے ہیں۔ لیکن واقعہ اسراء میں نبی کریم ﷺ کا ان کو دیگر وفات یافتہ انبیاء کی روحوں کے ساتھ دیکھنا بتاتاہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی دیگر انبیاء کی طرح فوت ہوچکے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح آسمانوں پر اٹھائی گئی یعنی ۲۷؍رمضان کی رات۔ (الطبقات الکبریٰ از علامہ ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۳۹ مطبوعہ دار صادر بیروت) حضرت علامہ ابن قیّمؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی روح کے ساتھ خارق عادت طور پر معراج کا واقعہ پیش آیا۔ جب کہ دیگر انبیاء کی ارواح وفات کے بعد جسم سے جدا ہو کر آسمان کی طرف بلند ہوئیں اور اپنے مقام پر جا ٹھہریں۔ زادالمعاد فی ھدی خیر العباد از علامہ ابن قیم جلد اول صفحہ ۲۰۳ مطبع نظام کانپور) حضرت داتا گنج بخش ہجویر ی ؒ فرماتے ہیں کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات آدم صفی اللہ اوریوسف صدیق اور موسی کلیم اللہ اورہارو ن حلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ صلوات اللہ علیھم اجمعین کو آسمانوں میں دیکھا تو ضرور بالضرور ان کی روحیں ہی تھیں۔ ( کشف المحجوب صفحہ ۳۱۷ مطبوعہ کشمیری بازارلاہور) پس حدیث معراج سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح طبعی موت کے بعد روحانی رفع ہوا ہے ۔ اوروہ خدا تعالیٰ کی ابدی جنت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے اورجہا ں سے کبھی کو ئی واپس آیا، نہ آئے گا۔
@@fatimasaddique5639 کیا حضرت عیسیٰ ؑ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّتی ہوسکتے ہیں؟ غیر احمدی علماءکی طرف سے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ ایک نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور دینِ اسلام کے مطابق خود بھی عمل کریں گے اور دوسروں سے بھی اسی شریعت پر عمل کروائیں گے۔ اس بارے میں قرآنِ کریم کی آیات اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہماری رہنمائی کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی کا امّتی تو بن سکتا ہے لیکن اپنے سے بعد میں آنے والے نبی کا امّتی نہیں بن سکتا، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ سے ظاہر ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ۔۔ یہودی یا عیسائی؟ اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل نہیں اتاری گئیں مگر اس کے بعد۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟ (آل عمران3:66) اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو توجہ دلاتے ہوئے ایک اصول بیان فرماتا ہے کہ امّتیں کتاب کے نزول کے بعد قائم ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہودی اور عیسائی امّتیں تورات اور انجیل کے نازل ہونے کے بعد وجود میں آئیں۔ جبکہ حضرت ابراہیم ؑ اُن دونوں کتابوں کے نزول یا بالفاظِ دیگر یہودی و عیسائی امّتوں کے قائم ہونے سے پہلے آچکے تھے۔ لہٰذا وہ ان دونوں امّتوں میں سے کسی ایک کے فرد بھی قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ کے امّتی اور یقینًا اسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا(الصّٰفٰت37:84) چونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام حضرت ابراہیم ؑکے بعد آئے تھے لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ ان کی امتوں کے فرد نہیں بن سکتے لیکن مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ حضرت نوح ؑ کے گروہ میں شامل قرار دئیے گئے ہیں کیونکہ حضرت نوح ؑ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے تھے۔ حضرت موسیٰؑ کی خواہش مندرجہ ذیل حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کی امّتِ محمدیہ میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسی بنیاد پر رد فرمادیا کہ وہ پہلے ہوچکے ہیں اور امّت محمدیہ حضرت موسیٰ ؑ کے تقریبًا دو ہزار سال بعد قرآن کے نزول کے ذریعے قائم ہونے والی تھی۔ غور کرنا چاہئے کہ یہی روک جو حضرت موسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے، وہی روک حضرت عیسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے۔ ابونعیم نے ”حلیہ“ میں حضرت انسؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجتبیٰ کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کرونگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے رب! احمد کون ہیں؟ فرمایا:۔ ”میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا۔ اور میں نے ان کا نام تخلیق زمین و آسمان سے پہلے عرش پر لکھا۔ بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ ان کی امت میں داخل نہ ہو۔“ …موسیٰ ؑنے عرض کیا اس امت کا نبی مجھے بنادے! فرمایا اس امت کا نبی انہیں میں سے ہوگا۔ عرض کیا مجھے اس امت میں سے بنادے! فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں، لیکن بہت جلد میں تم کو اور ان کو دارالجلال میں جمع کردونگا۔“ (علامہ جلال الدین سیوطیؒ الخصائص الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۱۲، اشرف علی تھانوی النشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب
@@fatimasaddique5639 اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ ’’اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے؛ ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ وفاتِ مسیح کا معاملہ تو جملہ معترضہ کی مانند درمیان آگیا ہے۔ مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اَڑالی ۔ان لوگوں کو مناسب نہ تھاکہ اس معاملہ میں دلیری کرتے۔ قولِ خدا ،رؤیت نبی اور اجماعِ صحابہؓ،یہ تین باتیں اس کے واسطے کافی تھیں۔ ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا اصلی امر ابھی دیگر ہے۔ یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اُٹھایا گیا ہے۔ سو چو کہ جو شخص دنیاداری میں غرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اُس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد ان کی دنیاداری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ایسےشخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ توکل بھی گیا اور آج بھی گیا۔ یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتاہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔انسان کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلاء دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گزرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہو جائے ۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے، مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبرکرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے لیکن ؎ عشق اوّل سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنّت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیبّہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصّہ مجھے بھی ملے۔ جبتک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کردے اور محسوس نہ کرلے کہ نفسِ اَمّارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔ اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے۔لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْا َسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِیْرًا (النسآء:146) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے ،اُس کو اُٹھایا جائے گا۔مگرمومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے،اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں‘‘۔
پھر ایک شکل یہ تھی کہ حضور کوخروج دجال تک دنیا ہی میں مقیم رکھا جاتالیکن اس صورت کا شان اقدس کے لئے نازیبا ہوناپہلی صورت سے بھی زیادہ واضح ہے۔ کیونکہ اول تو اس صورت میں حضور ؐکی بعثت کاآخری اور اصلی مقصد محض مدافعت دجال ٹھہرجاتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔دوسرے دجا ل کی اہمیت اس قدر بڑھ جاتی کہ گویااسی کے خوف کی خاطر حضور کو دنیا میں صدیوں ٹھہرایا جا رہا ہے۔ نیز امت کے کمالات بھی اس صورت میں پردۂ اخفا میں رہ جاتے ۔ کیونکہ آفتاب نبوت کی موجودگی میں کس ستارہ کی مجال تھی کہ اپنا نور نمایاں کر سکے۔ اس طرح تمام طبقات امت کے جو ہر چھپے رہ جاتے۔ اور گویا عُلَمَائُ اُمّتی کاَنْبِیَائِ بَنِی اِسْرَائِیْل کا ظہور ہی نہ ہو سکتا۔ اوراس سب کے علاوہ یہ صورت خود اصل موضوع ہی کے خلاف پڑتی ۔ یعنی دجال کا خروج ہی ناممکن ہو جاتا جس کے لئے مدافعت کی یہ صورتیں درکار تھیں۔ کیونکہ دجا ل اوراس کے مفاسد کا زور پکڑنا تو حضور ہی کے زمانہ سے بعد ہو جانے کے سبب سے ہو سکتا تھا ۔ اورجبکہ آپ خود ہی قیامت تک دنیا میں تشریف رکھتے تواس کے یہ معنی تھے کہ عالم میں کوئی فتنہ ہی نہ پھیلتا کہ قلوب میں شر کی استعداد بڑھے اورخروج دجال کی نوبت آئے۔ پس اس صورت میں خروج دجال ہی ممکن نہیں رہتاچہ جائیکہ اس کی مدافعت کی کوئی صورت فرض کی جائے۔ بہرحال اس صورت میں نہ امت کے کمالات کھلتے نہ ختم نبوت کی بے پناہ طاقت واضح ہوتی جس سے یہ واضح ہو سکتا کہ ذات بابرکات خاتم مطلق کی سب سے اکمل روحانیت اور بے انتہاء مکمل انسانیت جس طرح اگلوں کوفیض روحانیت پہنچارہی تھی اسی طر ح وہ پچھلوں میں تکمیل کمالات کا کام کر رہی ہے اور وہ ان محدود روحانیتوں کی مانند نہیں ہے جو دنیا میں آئیں اور گزر گئیں اورامتوں میں ان کا کوئی نقش قدم باقی نہ رہا۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتَم النّبیّین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور ؐ کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب ،نہ صدیوں باقی رکھاجانا شایان شان ، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کرا دیا جانا مصلحت اور ادھر اس ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت توکیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی۔ عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے ۔ بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتَم النبیّین کی غیرمعمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتَم النبیّین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کامقابلہ بعینہ خاتَم النبیّین کامقابلہ ہو۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو۔ محض مرتبۂ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ ٔ نبوت کی بھی برداشت کر سکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے ۔ نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جوفی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو ۔تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کاعکس اس میں اترسکے۔ اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے ۔ اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حدتک خاتمیت کی شان رکھتاہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایاجائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبۂ تشریع لئے ہوئے نہ ہو۔ بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے‘‘۔(’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ صفحہ ۲۲۶ تا ۲۲۹۔ ناشر نفیس اکیڈیمی کراچی ۔اشاعت مئی ۱۹۸۶ء) ایک غلطی کی اصلاح ۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے قلم سے بالآخر یہ وضاحت کرنا از بس ضروری ہے کہ جہاں قاری محمد طیب صاحب نیخاتَم النّبیّین کے عکس کامل اور امتی نبی کے ظہور کو بیان کرکے کھلے لفظوں میں احمدی علم کلام پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے وہاں یہ خوفناک غلطی بھی کی ہے کہ وہ امتی نبی سے مراد اسرائیلی مسیح قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں منصب نبوت آنحضرت ﷺ کے ظہور قدسی سے قبل عطا کیا گیا تھا اور امتی نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر فیض نبیٔ متبوع سے حاصل کرتاہے ۔ دوسرے ان کے دادا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’تحذیرالناس‘‘ میں خاتَم النّبیّینکے معنی ہی نبیوں کے باپ کے لئے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مبارک الفا ظ کا متن یہ ہے کہ : ’’حاصل مطلب آیہ کریمہ اس صورت میں یہ ہوگاکہ ابوّت معروفہ تو رسو ل اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّۃ معنوی اقسیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اورانبیاء کی نسبت بھی ۔انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّین شاہد ہے‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ ۱۳ ناشر دارالاشاعت کراچی نمبر ۱) اسی عارفانہ تفسیرکے پیش نظر آگے چل کر ڈنکے کی چوٹ آپ نے یہ اعلان بھی کردیاہے کہ: ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘۔(صفحہ ۳۴) اور اس دعویٰ کی دلیل یہ دی ہے کہ : ’’جونبی آپؐ کے ہم عصر ہوگاوہ متبع شریعت محمدیہ کاہوگا‘‘۔ (صفحہ ۵۱) اللھم صل علی محمد وآل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید (مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۹؍اپریل۱۹۹۹ء تا۱۵؍اپریل ۱۹۹۹ء)
Gusse what!!! This sect is now the fastest growing sect on the planet earth Alhamdulillah. Started from 1 country and now in 220 countries Alhamdulillah.
ALLAH TA'ALLA HAMEIYN HAMESHA HR KISM K FITNU SY MEHFOOZ RKHY AUR HAZRAT MUHAMMAD (S.A.W.W) KI SEERAT PAR AMAL KRNY AUR AQEEDA E KHATM E NABUWAT PAR KAAYM RKHY AMEEN........
Yeah hm sb schy Muhammad S.A.W k mnay waly schy Muslims k liay aik misal h k hmy sbko firqa wariyat chor k aik hona chaia Aik sachi Ashiqe rasool Allah or Muhammad SAW sa muhabt krny wala.