جناب! کافی غور سے پوری غزل سنی ہے اور مَطلع کو تو کئی بار سنا کہ کچھ صراحت ہو سکے- اگرچہ اس غزل کا وہ شعر میں نے پہلے سُن رکھا تھا جس کا مصرع یہ ہے ۔۔۔کہ جو عین وقتءنماز ہو؛ لیکن پوری کوشش سے میں مَطلع میں جو سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اس گائیک نے مَطلع کو غلط پڑھا ہے- میری دانست میں اگر مَطلع کے دونوں مصرعوں پر تفکٌر کریں تو ظاھر ہوتا ہے کہ عاشق سے محبوب یہ تقاضا کر رہا ہے کہ : وہ وفا کو اسطرح بہ صیغۂ راز نبھائے اور احتیاط کرے کہ نہ تو زبان پر شکوہ لاسکے اور نہ صدائے نالہ کو دراز کرے- یہاں گائیک نے لفظ احتیاج (بمعنی حاجت و طلب اور ضرورت) بولا ہے حالانکہ مضمون کا تقاضا لفظ احتیاط جو زبان پر شکوہ نہ لانے اور صدائے نالہ دراز نہ کرنے کی ہے، سے وابستہ ہے- اس تخیّل کے اعتبار سے مَطلع کے الفاظ اس طرح ہونا چاہیئں : نہ زباں پہ شکوہ تُو لا سکے نہ صدائے نالہ دراز ہو یہ ہیں احتیاط کی کوششیں کہ وفا بہ صیغۂ راز ہو- ))ظفر حسن رضا)
درست مطلع اور پوری غزل کا متن اس طرح ہے: نہ زباں پہ شکوہ تُو لا سکے، نہ صدائے نالہ دراز ہو یہ ہیں احتیاط کی کوششیں کہ وفا بہ صیغۂ راز ہو- تیری ایک بندشِ زُلف میں ، ہیں ہزار عقدۂ پُر شِکن یہ گَھٹا جو کُھل کے برس پڑے تو جہاں پہ بارشِ راز ہو- مجھے شَرع سے کوئی ضِد نہیں ، پر اس اتفاق کو کیا کروں کہ جو وقت بادہ کشی کا ہو ، وہی عین وقتِ نماز ہو - جو سہیں وفا کی صعوبَتیں ، وہ کریں دلوں پہ حکومتیں یہ طلسمِ ربط نہ ہو تو کیوں دلِ غزنوی میں ایاز ہو-
گُر ہندی زبان کا لفظ ہے اور شکن فارسی کا- اساتذہ اور شعراء الفاظ کی ترکیب میں ہندی اور فارسی الفاظ کر ملا کر ترکیبِ الفاظ نہیں بناتے- جبکہ پُر شکن کا مطلب یہ ہے کہ( وہ زلف) جو شکنوں سے بھری ہوئی ہو- زلف کے ساتھ شعرا پر شکن کا لفظ استعمال کرتے ہیں نہ کہ دل شکن کا- گر شکن تو سے سے غلط ہے-