نقاب ِ چشم مسلسل اٹھائی جاتی ہے
میں پی چکا تھا مگر پھر پلائی جاتی ہے
جھلک سے طور پر بجلی گرائی جاتی ہے
یہ آگ خود نہیں لگتی لگائی جاتی ہے
تم اپنی مست نگاہوں کو کیوں نہیں کہتے
ہمیں شراب کی تہمت لگائی جاتی ہے
ہمارے درد سے جب تم کو واسطہ ہی نہیں
تو پھر نظر سے نظر کیوں ملائی جاتی ہے
وہی لٹی میرے صبر و قرار کی دنیا
جہاں زمانے کی بگڑی بنائی جاتی ہے
ہماری کشتئی ہستی کا اب خدا حافظ
سنبھالتا ہوں مگر ڈگمگائیگائی جاتی ہے
قریب منزل مقصود اور فراق جگرؔ
سفر تمام ہوا نیند آئی جاتی ہے
کلام جگر مرادآبادی
آواز استاد بخشی سلامت قوال
16 сен 2024