ارے واہ صاحب! آج کلام غالب بلکہ شاہکار غالب اور وہ بھی آپ کہ آواز میں، گویا مئے ناب کی حدت دوچند ہو گئی۔ اتنے سبک لہجے اور اس قدر درست ادائیگی الفاظ کے ساتھ کم ہی لوگوں نے کلام غالب سے انصاف کیا ہے۔ آج شام کی چائے کا لطف دوآتشہ نہیں بلکہ سہ آتشہ ہو گیا۔ لیکن ایک بات کا قلق ہمیں ہمیشہ رہے گا کہ اگر غالب مے نوشی کی بجائے ہماری طرح چائے کے شوقین ہوتے اور وہ بھی بغیر شکر کے تو یقین جانئے، بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ان کے غنچہ نومولود کی پیدائش پر یوں مدح سرائی پر انھیں مجبور نہ ہونا پڑتا۔ یوں اس باکمال غزل میں ایک نادر شعر کا مزید اضافہ ہو جاتا۔ یوں بھی اگر غالب بادہ خوار اور رند خرابات نہ ہوتے تو ضرور ولی ہوتے۔ اسی غزل میں انھوں نے ایسے عمیق اور نازک متصوفانہ مضامین کو اتنے سہل انداز میں بیان کر دیا ہےکہ ہر شعر جواہرات میں تولنے کے لائق ہے۔ اس جھمیلے میں ہم آج نہیں پڑیں گے کہ'' دل کے بہلانے کو'' غالب کا خیال اچھا تھا یا پھر '' دل کے خوش رکھنے کو ''۔ پچھلی دفعہ اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ یوں بھی دل کا کیا ہے جناب! دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، خواہ کھلونوں سے بہلا لیجیے، خواہ سر سبز باغ دکھا کر خوش رکھ لیجیے، کیا فرق پڑتا ہے! ویسے اس میں بھی ایک رمز ہے جو راز سے بہر طور بہتر ہے۔
بہت بہت شکریہ۔ "دل کے خوش رکھنے" کا ہمیں کسی مجبوری کے سبب موقع نہیں مل سکا۔ آپ نے خطا معاف کر کے اچھا کیا۔ 😅 غالبؔ کے پڑھنے والے راحیلؔ کو بھی لائقِ اعتنا سمجھ لیں تو اسے اور کیا چاہیے؟
@@Urdu ارے صاحب! غالب کی اسی ایک غزل پر اگر ہم چاہیں تو پورا ایک مقالہ لکھ ڈالیں۔ اور اگر آپ چاہیں تو آپ کے اسلوب اور شاعری پر بھی تنقیدی و تحقیقی کتاب لکھ سکتے ہیں، جس میں آپ کی شاعری کے تانے بانے دبستان دلی سے نہ ملا دیں تو جو جی میں آئے کہیئے گا۔ ویسے آپ کی چھوٹی اور مختصر بحر کی نسبت طويل بحر کر غزلیات زیادہ عمیق ہیں۔ جبکہ چھوٹی بحر کی غزلوں میں رنگینئ تخیل اپنے عروج پر ہے۔ اور کچھ جناب؟
پھول چہرے پر وہ اشکوں کو مسلتی ہی رہی آگ آہوں کی مگر من میں بھڑکتی ہی رہی اک تبسم اس کی رعنائی سے کچھ کہتا رہا اک ہنسی میرے لبوں پر بھی مہکتی ہی رہی ریل کی سیٹی بجی اور وہ جدا ہونے لگا چیخ اک سینے میں دب کر پھر مچلتی ہی رہی اس کی باتوں میں نشہ تھا سن کے سب حیران تھے دیر تک باد صبا گلشن میں چلتی ہی رہی عشق کے آزار یارو کس قدر سنگین تھے جان پر ہر لمحہ آفت کوئی بنتی ہی رہی یہ انا قاتل ہے میری بات کو تم مان لو یہ بلا معصوم جانوں کو نگلتی ہی رہی خامشی سے بہہ رہا ہے جس طرح آب رواں زندگی اپنی شہاؔب ایسے گذرتی ہی رہی (شہاب اللہ شہاؔب)